اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو اجلاس کے دوسرے روز بھی اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، پیپلز پارٹی کے دورے میں ملک کی پہلی خاتون اسپیکر رہنے والے فہمیدہ مرزا نے بھی اسپیکر کو ’غیر جانبدار‘ رہنے کا مشورہ دے دیا۔

فہمیدہ مرزا نے کہا کہ ’جب اسپیکر اپنے عہدے کا حلف اٹھالیتا ہے تو یہ بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایوان کو غیر جانب دار طریقے سے چلائے گا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے ایوان کو کیسے چلایا یہ مجھے یاد دلانے کی ضرورت نہیں، مجھے اس بات کی فکر نہیں تھی کہ آیا پارٹی قیادت مجھ سے خوش ہے یا نہیں، مجھے کابینہ میں موجود اپنے ساتھیوں کی تنقید سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا جو یہ کہتے تھے کہ میں اپوزیشن کو ایوان میں بولنے کیلئے زیادہ وقت دیتی ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’اسپیکر کے جانبدار رویے سے اپوزیشن نالاں‘

انہوں نے کہا کہ میں نے ایوان کو ایک فارمولے کے تحت چلایا ، وہ فارمولا یہ ہے کہ اکثریت کو بھی بات کرنے دی جائے اور اقلیت کو بھی۔

فہمیدہ مرزا نے کہا کہ یہ حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ جو معاملہ چاہے ایوان میں لے آئے لیکن اپوزیشن کو کم سے کم اس پر تنقید کا حق تو دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ بحیثیت اسپیکر انہوں نے شخصیات کے بجائے ادارے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔

فہمیدہ مرزا نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے معاملے پر اپنے تفصیلی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ نے ان کے حق میں قرار داد منظور کی تھی اور انہیں اعتماد کا ووٹ دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ کے ایک عہدے دار وزیراعظم کو نااہل کرانے کیلئے اسپیکر کا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے اور آئین کا حوالہ دے کر یہ کہتے تھے کہ اسپکیر ایسے معاملات پر اپنے ذہن کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسپیکر کا دفتر ڈاک خانہ نہیں جو کسی کی ہدایات پر خط بھیجتا رہے، ان کے اس بیان کی اپوزیشن بنچوں کی جانب سے ڈیسک بجاکر تائید کی گئی۔

فہمیدہ مرزا نے اس موقع پر اسپیکر ایاز صادق کے ناقدین کو بھی مشورہ دیا کہ وہ محتاط رہیں اور تنقید کرنے سے قبل یہ معلوم کرلیں کہ اسپیکر نے اپنے فیصلے میں کیا لکھا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن بھیج دیا گیا

پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی شفقت محمود بار ہا درخواست کرتے رہے کہ انہیں بولنے کی اجازت دی جائے تاہم اسپیکر ایاز صادق نے انہیں کہا کہ وہ اپنی باری کا انتظار کریں۔

بعد ازاں اپنی تقریر میں شفقت محمود نے کہا کہ ’خواجہ آصف نے جو کچھ کہا اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور وزیر دفاع نے دراصل اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسپیکر جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی تقریر میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ جب کوئی شخص اسپیکر کی کرسی پر براجمان ہوجاتا ہے تو اس کا رتبہ بڑھ جاتا ہے اور اسے جانبداری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے جو فیصلہ کیا وہ جانبداری پر مبنی تھا اور اس سے نہ انہوں نے اپنا وقار بلند کیا نہ ہی ایوان کا۔

شفقت محمود نے کہا کہ ’خواجہ آصف کی تو منطق ہی نرالی تھی، وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں غیر جانبدار اسپیکر کی روایت ہی موجود نہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کا زور اس حقیقت پر تھا کہ پاکستان میں اسپیکر کا عہدہ کبھی غیر جانبدار نہیں رہا لیکن دراصل وہ یہ تسلیم کررہے تھے کہ چونکہ اسپیکر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے لہٰذا اس کے فیصلے پارٹی کے حق میں ہی ہوں گے۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’میں خواجہ آصف کی منطق کو سراہتا ہوں اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خواجہ آصف اور حکمراں جماعت کے مطابق اسپیکر کا دفتر غیر جانبدار نہیں لہٰذا ہمیں ان سے فراغ دلی اور غیر جانبداری کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں:نااہلی ریفرنس: اسپیکر نے اپنی ساکھ مجروح کی، عمران خان

شفقت محمود نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ اور عوامی مسائل کے درمیان عدم مطابقت بڑھتی جارہی ہے کیوں کہ یہاں جن معاملات پر بات ہوتی ہے وہ عام آدمی کے مسائل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ہم سردیوں میں ہیٹ اسٹروک کی بات کررہے ہوتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمیں عوامی مسائل میں کتنی دلچسپی ہے اور یہ سب حکمراں جماعت کی وجہ سے ہورہا ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ اگر آپ اپوزیشن کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہوئے فیصلے کریں گے اور ہمیں بحث میں حصہ لینے سے روکیں گے تو اس سے ایوان کی اہمیت مزید کم ہوجائے گی۔

یوم دفاع پر قرار داد

اپوزیشن نے یوم دفاع کے موقع پر کوئی قرار داد تیار نہ کرنے پر ایک بار پھر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

اس موقع پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’6 ستمبر ایک تاریخی دن ہے، اس روز ہمارے جوانوں نے لازوال قربانیاں دے کر انڈیا کی طاقتور فوج کو پیچھے دھکیلا، لیکن ہمیں یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ 6 ستمبر 1965 کے چھ سال بعد 71ء میں کیا ہوا‘۔

چھوٹے صوبوں میں پائی جانے والے احساس محرومی کا حوالہ دیتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ ’کئی ممالک نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا تو ہم کیوں نہیں سیکھ سکتے؟ ہم سب وفاقی مملکت کا حصہ ہیں، بلوچستان کو بھی وہ سب کچھ حاصل کرنے کا حق ہے جو سندھ کو مل رہا ہے اور سندھ کو بھی اتنا حصہ ملنا چاہیے جتنا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کو مل رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 6 ستمبر 1965 کے روز ہمارے بہاد فوجیوں نے ملک کو بچایا لیکن آج یہ ذمہ داری ہم پر ہے، آج ہم جو فیصلے کریں گے وہ کل تاریخ کا حصہ ہوں گے۔

تحریک انصاف کے شفقت محمود، پیپلز پارٹی کی شازیہ مری، فہمیدہ مرزا، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ اور متحدہ قومی موومنٹ کے شیخ صلاح الدین نے یوم دفاع کی مناسبت سے قرار داد کی منظوری کا مطالبہ کیا تاہم کوئی قرار داد پیش یا منظور نہیں کی گئی۔

**یہ خبر 7 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی **


ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

SMH Sep 07, 2016 08:17am
کہاوت ہے کہ چھج تاں بولے چھاننی کیوں بولے۔ چھاننی میں ہزاروں چھید ہوتے ہیں۔۔۔