’کھیتوں میں ٹینک چلانے سے غربت ختم نہیں ہوسکتی‘

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2016
وزیراعظم نواز شریف ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے — فوٹو: بشکریہ پی آئی ڈی
وزیراعظم نواز شریف ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے — فوٹو: بشکریہ پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کے غربت کے خاتمے کے عزم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کھیتوں میں ٹینک چلانے سے غربت ختم نہیں ہوسکتی۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ غربت کے خاتمے میں ہمارا مقابلہ ہو، اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ بے روز گاری کے خاتمے کے لیے ہمارا مقابلہ ہو، اگر ان کی خواہش یہ ہے کہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں اور ترقی و خوشحالی میں ہمارا مقابلہ ہو، تو یہ کام آگ، بارود اور خون کے کھیل کے ذریعے نہیں ہو سکتا، جن کھیتوں میں بارود بویا جائے، ان میں روزگار اور خوشحالی کے پھول نہیں کھیلا کرتے، جن زمینوں کو ٹینکوں اور توپوں سے روندا جائے، وہاں عوامی فلاح و بہبود کے چمن نہیں لہرایا کرتے، اگر آپ واقعی اس خطے کے عوام کی زندگیوں میں انقلاب چاہتے ہیں، تو اپنے قول اور فعل کا تضاد دور کریں.

پاکستان اور بھارت میں سب سے پرانے تنازع کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت پوری دنیا پر واضح ہوچکی ہے کہ 7 لاکھ ہندوستانی فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کچلا نہیں جاسکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیروں کو اس حق سے محروم نہیں کرسکتا جس کا وعدہ کر رکھا ہے، لیکن اب اقوام متحدہ کو عالمی امن کے محافظ کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھنا ہوگی۔

وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے، لیکن چہرے مسخ کرنے اور بینائی محروم کرنے سے آزادی کی تحریک کو کچلانہیں جاسکتا۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کے حقوق کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے بہادر فرزند کے خون سے روشن ہونے والی شمع نے دنیا کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہندوستان کو متعدد بار مذاکرات کی دعوت دی تاہم اس کو ٹھکرایا گیا۔

وزیراعظم نے بتایا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بار بار کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا، عالمی برادری کو بتایا کہ کشمیریوں کی نئی نسل ہندوستان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے، ایک نئی تحریک نے جنم لیا ہے اور اس تحریک کو بھارت کے مظالم سے روکا نہیں جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیریوں کے حقوق کی فراہمی، آزادانہ استصواب رائے کا حق دینے اور جموں کشمیر سے ہندوستانی فوج کے انخلاء کے نکات اٹھائے گئے۔

وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت نے حالیہ مہینوں میں کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کے اقدامات کیے، سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو اس پر بریفنگ دی گئی، اقوام متحدہ کو خطوط لکھے گئے اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اڑی کا واقعہ عین اُس وقت پیش آیا جب میں جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے جا رہا تھا اور اس حملے کی ابتدائی تحقیق سے قبل پاکستان پر الزام لگا دیا گیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس الزام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے عزائم کیا تھے، بغیر کسی ثبوت کے یہی راگ الاپا گیا اور پھر دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 28 ستمبر کو لائن آف کنٹرول پر بلا جواز فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس سے 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اشتعال کے بجائے مذاکرات سے مسائل کے حل پر زور دیا ہے۔

مزید پڑھیں:پارلیمانی جماعتیں مسئلہ کشمیر پر متحد

نواز شریف نے کہا کہ پاکستان جنگ کے خلاف ہے، ہم خطے میں پائیدار امن چاہتے ہیں اور کشمیر سمیت تمام مسائل مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری امن کی خواہش کو ایک خوددار قوم کی خواہش سمجھی جائے،ہم ملک کے دفاع کے لیے کسی بھی اقدام میں ایک لمحہ نہیں لگائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ملک ہے، سیکیورٹی اداروں اور قوم کا لہو اس کی نظر ہوا ہے، اس جنگ کا آغاز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیا گیا اور دنیا یہ سب جانتی ہے۔

نواز شریف نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا مقصد یہی ہے کہ تعمیری سوچ کے ساتھ حکومت کو تجاویز دی جائیں۔

قبل ازیں پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرِ صدارت ہونے والے پارلیمنٹ کےاہم مشترکہ اجلاس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان نے پاک-بھارت کشیدگی پر ایوان میں بحث کی۔

اجلاس سے قبل وزیر اعظم و اپوزیشن لیڈر ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہوئے — فوٹو: بشکریہ پی آئی ڈی
اجلاس سے قبل وزیر اعظم و اپوزیشن لیڈر ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہوئے — فوٹو: بشکریہ پی آئی ڈی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر رکھا ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی دیکھنے کے لیے اسپیکر گیلری میں موجود ہیں۔

تلاوت قرآن پاک کے بعد اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے بلاول بھٹو زرداری کو پارلیمنٹ میں خوش آمدید کہا۔

’’ہندوستانی حکومت نے سفارتی سطح پر اکیلا کرنے کی کوشش کی‘‘

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید نے اظہار خیال کرتے ہوءے کہا کہ ایوان میں اس قسم کے قراردادیں پاس ہوئیں لیکن ان پر عمل نہیں کیا گیا، اگر ہم ماضی میں ان قراردادوں اور سفارشات پر عمل کرتے تو آج ہندوستان نہتے کشمیریوں پر ظلم نہیں کر رہا ہوتا۔

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ — فوٹو : ڈان نیوز
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ — فوٹو : ڈان نیوز

خورشید شاہ نے کہا کہ اگر ہم دنیا پر سفارتی دباؤ برقرار رکھتے اور کرکٹ ڈپلومیسی یا آگرہ کے فوٹو سیشن کی وجہ سے ڈپلومیسی کا شکار نہیں ہوتی تو آج کشمیری عوام پر ظلم نہیں ہو رہا ہوتا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے مزید کہا کہ ہندوستانی حکومت نے سفارتی سطح پر ہمیں اکیلا کرنے کی کوشش کی، جس کی سب سے بڑی مثال سارک کانفرنس ہے جہاں پانچ ممالک نے کانفرنس نے شرکت سے انکار کردیا اور ہمیں اس بارے میں سوچنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جب ملک ٹوٹا تو اس وقت کی قیادت نے 13 دن میں 40 اسلامی ملکوں کا دورہ کیا جس سے پیغام گیا کہ مسلم ممالک ہمارے ساتھ ہیں اور بعد میں ہم بھرپور عالمی دباؤ کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی بم بنانے کا فیصلہ کیا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ جب برصغیر بنانا تو حیدر آباد، جونا گڑھ اور کشمیر نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا کہا، حیدر آباد اور جونا گڑھ میں عوام سے رائے لینے کی بات کی گئی جبکہ وہاں کے حکمران پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے جبکہ کشمیر کی عوام نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کا عزم ظاہر کیا تو وہاں کے ڈوگرا حکمران کی بات سنی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر بہت اچھی تھی لیکن انہیں پاکستان میں ہندوستان کی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے کلبھوشن یادو کا معاملہ اٹھانا چاہیے تھا۔

حکومت تنقید کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر زور دینا چاہیئے کہ ان کی کشمیر پر قراردادیں ہیں جن پر عمل کیا جائے، لیکن پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، خارجہ امور کے 2 مشیر ہیں، سمجھ نہیں آتا کوئی سینئر ہے، آل پارٹیز کانفرنس میں طارق فاطمی بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ اسمبلی اجلاس میں سرتاج عزیز شریک ہیں، جبکہ طارق فاطمی کو باہر بٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر حزب اختلاف حکومت کے ساتھ ہے، ہمارا ایمان ہے کہ کشمیر کی فتح ہو گی اور ایک دن اس کو آزاد کروانا ہے، پارلیمنٹ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کی آواز ہے، جو کہ کشمیر کی آزادی چاہتی ہے۔

ایوان میں ارکان اس وقت ہنسنے پر مجبور ہو گئے جب خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کے سامنے تو ڈائس ہوتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہے، جس پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ آپ کے سامنے بھی ڈائس رکھوا دیتے ہیں، اسی دوران وزیر اعظم نے کہا کہ آپ میری نشست پر آجائیں، جس پر خورشید شاہ نے بلاول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ازراہ مذاق کہا کہ یہاں میرے لیڈرز بھی بیٹھے ہیں ، وہ سوچیں گے کہ پتہ نہیں یہاں کیا سودے بازی چل رہی ہے۔

'کشمیری تنہا نہیں،ہم ان کے ساتھ ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے — فوٹو: ڈان نیوز

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور مقامی طور پر بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی ہے، جسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم کشمیریوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہم ان کے ساتھ ہیں، پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان نے کسی بھی قسم کی جارحیت کا مظاہرہ کیا اور پاک فوج نے سرحدوں کی حفاظت کیلئے جنگ کا آغاز کیا تو پوری قوم ان کی پشت پر کھڑی رہے گی اور وطن عزیز کا دفاع کرے گی۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دنیا ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ہم اُڑی حملے کی مذمت کریں لیکن کوئی بھی ہندوستانی فورسز کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و ستم کی مذمت نہیں کر رہا، جہاں چَھروں کی بندوقوں کے استعمال سے سیکڑوں کشمیری اپنی بینائی کھو چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک قسم کا ظلم ہے جو اس وقت دنیا میں جاری ہے کہ اگر کشمیر کا کوئی مسئلہ ہے تو وہ خود جانیں، افغانستان میں ہے تو افغانی خود اس کا حل کریں، عراق کی جو صورتحال ہے وہ وہاں کے عوام جانیں، فلسطین کی صورتحال ہے تو وہ خود اس کا حل تلاش کریں، انھوں نے مطالبہ کیا کہ ایک اُمت کے مسائل اور مشکلات میں ہمیں پوری دنیا کو ایک کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی برطانیہ اور امریکا سے اس حوالے سے بات کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ آپ کا دو طرفہ معاملہ ہے، اسے آپ آپس میں طے کریں۔

فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر ہمارے درمیان خارجہ تعلقات کا معاملہ ہے، تعلیم یا اس قسم کے دیگر معاملات ہیں تو وہ ہم آپس میں طے کرلیں گے لیکن اگر مسئلہ کشمیر کا ہے تو اس حوالے سے عالمی اداروں کی قراردادیں موجود ہیں، جس کے بعد اس مسئلے کو ہندوستان سے براہ راست حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

ہندوستانی جارحیت—کب کیا ہوا

واضح رہے کہ 29 ستمبر کو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے اطراف پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔

پاکستان نے ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں اس کے دو فوجی جاں بحق ہوئے۔

بعد ازاں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے ایک ہندوستانی فوجی کو پکڑا بھی گیا ہے جبکہ بھرپور جوابی کارراوئی میں کئی انڈین فوجی ہلاک بھی ہوئے۔

ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کشمیر کی موجودہ صورتحال پر دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے اور اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

18 ستمبر کو کشمیر کے اڑی فوجی کیمپ میں ہونے والے حملے کے بعد جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، ہندوستان نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا تھا تاہم پاکستان نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں صورتحال کشیدہ ہے اور پولیس سے جھڑپوں اور مظاہروں میں اب تک 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ چھرے لگنے سے 150 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہندوستان نے نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد دیگر ممالک نے بھی بھارت کی پیروی کی اور بالآخر سارک کانفرس کو ملتوی کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں