سول ہسپتال کراچی کے برنس وارڈ کے اندر 20 سالہ عباس اقبال زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔

اس کے سرہانے کھڑا ایک ڈاکٹر عباس اقبال کے والد اور انکل کو بتا رہا ہے کہ اس نوجوان کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس کا جسم 40 فیصد سے زائد جل چکا ہے، اس کا جسم اتنی بری طرح جلا ہے کہ اس کی جلد کی ساخت بھی مسخ ہوچکی ہے۔

اقبال ان متعدد مزدوروں میں سے ایک ہے جو گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں پیش آنے والے خوفناک حادثے میں سنگین حد تک زخمی ہوئے جبکہ بیس سے زائد ورکرز ایندھن کا ٹینک پھٹنے سے پھیلنے والی آگ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

اگرچہ اس آتشزدگی پر کئی روز تک قابو نہیں پایا جاسکتا مگر ریسکیو حکام نے عباس اقبال اور دیگر 25 مزدوروں کو کراچی کے ہسپتالوں میں منتقل کردیا کیونکہ گڈانی میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔

عباس اقبال نے مدھم آواز میں بات کرتے ہوئے بتایا ' میں ایک جہاز کے ٹینک میں کام کررہا تھا جب ہمارے ایک ساتھی نے حادثاتی طور پر بلو ٹارچ ایک ٹینک میں گرادی جس میں چھ فٹ تک تیل موجود تھا'۔

اس نے بتایا ' ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت کے اندر میں نے ایک زوردار دھماکا سنا اور آگ کو پھیلتے دیکھا، میں نے پھر خود کو سمندر کے اندر پایا'۔

اس کا کہنا تھا ' خوش قسمتی سے میں اپنے گاﺅں میں تیرنا جانتا تھا تو میں نے سمندر میں تیرنا شروع کردیا کیونکہ میں زندہ رہنا چاہتا تھا، میں جب امید کھو چکا تھا اس وقت مجھے ایک جہاز سے منسلک رسی نظر آئی اور میں نے اسے پکڑ لیا، اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ آگے کیا ہوا'۔

ایک مزدور کا بیٹا عباس اقبال اپنے آٹھ افراد کے خاندان کا واحد کفیل ہے، دیگر متعدد غریب مزدوروں کی طرح گڈانی میں انتہائی خطرناک حالات میں کام کرنے والا عباس اقبال پنجاب کے علاقے پاکپتن کے چک 77 سے اس وقت یہاں آیا، جب گاﺅں کے ایک شخص نے اسے بلوچستان میں ملازمت کے بارے میں بتایا۔

اپنے خاندان کے مالی بوجھ میں کمی لانے کی خواہش رکھنے والے اس نوجوان نے اس ملازمت میں دلچسپی ظاہر کی اور بہت جلد وہ اپنے گاﺅں کے دیگر افراد کے ہمراہ گڈانی روانہ ہوگیا۔

ہسپتال میں زیرعلاج دیگر مزدوروں نے بھی اسی طرح کی کہانیاں بیان کیں کہ کس طرح وہ اپنے دیہات کو چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شپ بریکنگ یارڈ میں پہنچے۔ رہائشی سہولیات یا روزانہ کی خوراک کی فراہمی کے بغیر کام کرنے ان مزدوروں کا کہنا تھا کہ انہیں فی گھنٹہ 57 سے 72 روپے معاوضہ دیا جاتا اور وہ 14 گھنٹے تک کام کرتے۔

انہیں کسی حادثے سے بچاﺅ کے لیے حفاظتی آلات یا تربیت فراہم نہیں کی گئی اور یہ مزدور تسلیم کرتے ہیں کہ 'چھوٹے حادثات' اکثر ہوتے رہتے ہیں۔

حالیہ سانحے سے صرف دو دن پہلے یہاں کام کرنے والے ورکرز نے کراچی میں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (این ٹی ایف یو) کے زیرتحت ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کا مقصد قانونی ورکرز کی حیثیت کا حصول تھا۔

ایک مزدور رہنماءرفیق بلوچ کے مطابق ' اگرچہ یہ ورکرز اپنے مالکان اور ملک کو اربوں روپے کما کر دیتے ہیں، مگر وہ بنیادی سہولیات جیسے میڈیکل، اپنے بچوں کے لیے تعلیم اور ضروری اشیاءجیسے پینے کا صاف پانی، گیس اور بجلی سے محروم ہیں'۔

ایک مزدور نے بتایا ' چھوٹے حادثات معمول کا حصہ ہیں، ماضی میں ایک مزدور ایک آئل ٹینک میں گر کر ہلاک ہوگیا اور ہمارے پاس اسے نکالنے کے لیے کوئی میکنزم نہیں تھا'۔

اقبال نے بتیا کہ اس کا کام ایک جہاز کے ٹینک میں موجود تیل کو رسی اور بالٹی کی مدد سے باہر نکالنا تھا۔

اس کے بقول ' ہمیں اسی وقت معاوضہ ملتا جب ایک جہاز توڑ دیا جاتا اور جب کوئی کام نہیں ہوتا تو ہم کسی آمدنی کے بغیر فارغ بیٹھے رہتے، ہم ان جہازوں میں رہنے کے عادی تھے جہاں کام کرتے کیونکہ علیحدہ سے کوئی رہائش دستیاب نہیں تھی'۔

سول ہسپتال کے اسسٹنٹ ڈپٹی میڈیکل سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر سریش نے ڈان کو بتایا کہ اس وقت برنس وارڈ میں سات مریض زیر علاج ہیں، عام طور پر وہی مریض زندہ بچ پاتا ہے جس کا جسم تیس فیصد سے کم جلا ہو، مگر یہاں پہنچنے والے کچھ متاثرین کے جسم 60 سے 90 فیصد تک جل چکے ہیں۔

سول ہسپتال کے آرتھو پیڈک وارڈ کے ڈاکٹر اسد نے بتایا کہ متعدد متاثرین کے جلنے کے زخموں کی سنگینی دیکھ کر اعضاءکے کاٹنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

مشتاق احمد بھی اس سانحے میں زخمی ہونے والا ایک اور متاثرہ شخص ہے، خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کے ایک گاﺅں سے تعلق رکھنے والا مشتاق اپنے علاقے میں بیروزگاری کے باعث یہاں آیا اور 57 روپے فی گھنٹہ معاوضے کی ملازمت پاکر بہت خوش ہوا۔

اس کی بائیں ٹانگ میں کئی فریکچر ہوئے ہیں جبکہ کہنی اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہے، ڈاکٹر ابھی آپریشن کے لیے جسم کی سوجن میں کمی کا انتظار کررہے ہیں۔

وہ یاد کرتا ہے ' میں اس وقت جہاز کے ڈیک پر تھا اور ایک ہک میں رسی لگا رہا تھا جب میں نے ایک دھماکے کی آواز سنی اور آگے کے شعلے بلند ہوتے دیکھے، میں ڈیڑھ سو فٹ بلند پلیٹ فارم سے نیچے زمین پر جاگرا'۔

اس نے مزید بتایا کہ جب آگ پھیلی تو اس وقت لگ بھگ تین سو مزدور جہاز پر موجود تھے۔

اگرچہ وزیراعظم سے لے کر صوبائی وزیراعلیٰ تک اعلیٰ حکام نے واقعے کی تحقیقات اور اس معاملے کو دیکھنے کے لیے کمیٹیوں کو تشکیل دیا، مگر یہ کوئی جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ اس سانحے کا ذمہ دار کون ہے، مزدوروں کے ساتھ ہونے والا غیر انسانی سلوک اور غفلت کے نتیجے میں پاکستان کی صنعتی تاریخ کے دوسرے بڑے سانحے کا باعث بنی۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے PILER اور ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رکن عابدہ پروین نے کہا کہ 120 کے لگ بھگ مزدور لاپتہ ہیں اور ان کے کام کے دوران کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو باسل کنونشن کے حقیقی عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے جو کہ نقصان فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے اور جہازوں کی ری سائیکلنگ کو ماحول دوست سمیت وہاں کام کرنے والوں کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔

انہوں نے کہا ' صوبائی حکومتوں کو مزدور دوست لیبر پالیسیوں کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے جن میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو جبکہ صحت اور تحفظ کے معیار پر عملدرآمد ہو'۔

تبصرے (0) بند ہیں