حب: صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں درگاہ شاہ نورانی میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری عراق و شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کرلی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق داعش نے اپنی اعماق نیوز ایجنسی میں مزار پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے خود کش دھماکا قرار دیا۔

ایک سیکیورٹی اہلکار دھماکے کے مقام کا جائزہ لے رہا ہے — فوٹو / اے ایف پی
ایک سیکیورٹی اہلکار دھماکے کے مقام کا جائزہ لے رہا ہے — فوٹو / اے ایف پی

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قلات کے کمشنر محمد ہاشم غزالی نے بتایا کہ ’سامنے آنے والی معلومات کے مطابق دھماکا خود کش تھا، ایک نوجوان لڑکا اس مقام پر پہنچا جہاں لوگ دھمال ڈال رہے تھے اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا‘۔

واضح رہے کہ اس دھماکے کے نتیجے میں اب تک 52 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: درگاہ شاہ نورانی میں دھماکا، 52 افراد ہلاک

شاہ نورانی دھماکے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف حب کے لیویز تھانے میں درج کرلیا گیا جبکہ مزار کو بھی تین دن کے لیے بند کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سیکیورٹی فورسز نے مزار کے اطراف کے علاقوں کا محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ درگارہ کے قریب مسافر خانوں کو بھی خالی کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔

دھماکے میں ملوث افراد کا انسانیت سے تعلق نہیں، آئی جی ایف سی

فرنٹیئر کور (ایف سی) بلوچستان کے آئی جی میجر جنرل شیر افگن نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جنھوں نے مزار پر حملہ کیا ہے ان کا نہ تو کوئی مذہب ہے اور نہ ہی ان کا انسانیت سے دور دور کا کوئی تعلق ہے۔

انھوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی مذہب اس قسم کے حملوں کی اجازت نہیں دینا جس میں نہتے عوام کا خون بہایا جائے۔

انھوں نے سماجی تنظیم ایدھی ایمبولنس سروس کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے ان کے رضا کاروں نے دھماکے کے مقام پر پہنچ کر ریسکیو کے کام کا آغاز کیا، ان کے بعد آرمی، کراچی سے رینجرز اور ایف سی اہلکاروں نے بھی امدادی کاموں میں حصہ لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں 36 لاشیں کراچی منتقل کی گئی ہیں جبکہ ہلاک ہونے والے 4 افراد مقامی تھے۔

آئی جی ایف سی نے کہا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والوں میں 14 کی حالت تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق خود کش بمبار نے جو جیکٹ پہن رکھی تھی اس میں 5 سے 6 کلو گرام بارودی مواد تھا جس میں بال بیرنگ اور نائن ایم ایم کی گولیاں استمعال کی گئی تھیں جس کی وجہ سے اس قدر جانی نقصان ہوا۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ خود کش بمبار کا چہرہ اور اس کے بال جائے وقوعہ سے ملے ہیں اور تحقیقاتی ادارے اس کی شناخت کی کوششیں کررہے ہیں۔

ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ

شاہ نورانی درگارہ پر دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی جس میں دھماکے کو خود کش قرار دیا گیا اور حملہ آور کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا۔ ڈان نیوز سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شاہ نورانی دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی۔

دھماکے کے بعد جائے وقوع کو ٹینٹ لگاکر بند کردیا گیا اور شواہد اکھٹے کیے گئے — فوٹو / اے پی
دھماکے کے بعد جائے وقوع کو ٹینٹ لگاکر بند کردیا گیا اور شواہد اکھٹے کیے گئے — فوٹو / اے پی

رپورٹ کے مطابق دھماکا خود کش تھا اور حملہ آور افغانی لگتا تھا، دھماکا ہفتہ 12 نومبر کو شام 5 بج کر 50 منٹ پر کیا گیا۔

تحقیقاتی حکام کے مطابق اس دھماکے میں 7 کلو گرام سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا جبکہ خود کش جیکٹ یا بیلٹ میں بال بیرنگز کا بھی زیادہ استعمال کیا گیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ شاہ نورانی مزار کے اندر اور اطراف میں لیویز کے 12 اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔

یہ بات بھی سامنے آئی کہ مزار میں کسی قسم کے میٹل ڈیٹیکٹر یا واک تھرو گیٹس موجود نہیں تھے۔

میتیں ورثاء کے حوالے

درگاہ شاہ نورانی پر خودکش دھماکے میں جاں بحق افراد میں سے بیشتر کی میتیں ورثا کے حوالے کردی گئیں۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق معمولی زخمیوں کو سول اسپتال میں طبی امداد دے کر فارغ کردیا گیا جبکہ 100 سے زائد زخمی کراچی کے مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

16 میتیں ایدھی سرد خانے منتقل کردی گئیں جبکہ 20 لاشوں کو ورثا کے حوالے کردیا گیا۔

خود کش حملے میں جاں بحق افراد میں سے 36 کی لاشیں کراچی کے سول اسپتال لائی گئیں تاہم بعد میں 16 میتیں ایدھی سرد خانے منتقل کردی گئیں جبکہ 20 کو ورثا کے حوالے کردیا گیا۔

سول اسپتال کے باہر لوگ فہرست میں نام تلاش کرتے رہے جبکہ حفاظتی اقدامات کے پیش نظر اسپتال کے باہر بھی سیکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے، بعض زخمیوں اور میتوں کو حب کے اسپتال بھی منتقل کیا گیا۔

اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کا سول ہسپتال کا دورہ

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی پہنچ کر سول ہسپتال کا دورہ کیا اور درگاہ شاہ نورانی میں ہونے والے خود کش حملے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی۔

اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں سول ہسپتال کا دور کیا، جہاں درگاہ شاہ نورانی دھماکے کے زخمیوں کو علاج کیلئے منتقل کیا گیا تھا۔

اس موقع پر انھوں نے زخمیوں کی عیادت کی اور ہسپتال کی انتظامیہ کو مریضوں کیلئے بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری بھی سول ہسپتال پہنچے اور دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی۔

ڈان نیوز کے مطابق سول ہسپتال کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ شاہ نورانی میں خودکش دھماکے کے بعد مسافرخانے کو خالی کراکر درگاہ کو سیل کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ باؤنڈری وال کی تعمیر اور سیکیورٹی انتظامات مکمل ہونے کے بعد درگاہ کو زائرین کیلئے دوبارہ کھولا جائے گا۔

کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے سول ہسپتال پہنچ کر درگاہ شاہ نوارنی کے دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے بھی سول ہسپتال کا دورہ کیا اور دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی۔

سول ہسپتال میں سول اور عسکری قیادت کی آمد کے موقع پر ہسپتال میں اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

ماضی میں بھی پاکستان کی درگاہوں کو نشانہ بنایا گیا

مزار میں موجود زائرین کو دھماکے بعد محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے رات بسر کی — فوٹو / اے ایف پی
مزار میں موجود زائرین کو دھماکے بعد محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے رات بسر کی — فوٹو / اے ایف پی

ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماضی میں بھی دہشت گردوں نے درگاہوں کو نشانہ بنایا ہے، امن دشمنوں نے کراچی کے عبداللہ شاہ غازی، لاہور کے داتا دربار اور ڈیرہ غازی خان کے دربار سخی سرور میں بھی زائرین کو نشانہ بنایا تھا۔

کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر اکتوبر 2010 میں ہونے والے دھماکوں میں 8 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

ڈیرہ غازی خان میں 2011 میں صوفی سخی سرور کے مزار پر خود کش حملے میں 50 افرادجاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

27 مئی 2005 میں اسلام آباد میں بری امام کے مزار پر خود کش بم حملے میں 18 افراد جاں بحق اور 86 زخمی ہوئے تھے۔

یکم جولائی 2010 میں داتا دربار پر 3 دھماکوں میں 35 سے زائد افراد جاں بحق اور 170 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

25 فروری 2013 کو شکارپور کی درگاہ غازی غلام شاہ میں ہونے والے دھماکے میں 3 افراد جاں بحق اور 24 زخمی ہوگئے تھے۔

خیال رہے کہ صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث رہی ہیں جبکہ گذشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔

25 اکتوبر 2016 کو بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 61 اہلکار ہلاک اور 117 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں ڈان نیوز کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔


تبصرے (0) بند ہیں