اب جبکہ گوادر پورٹ سے دو سو سے زائد کنٹینرز کو دو جہازوں پر لاد کر دنیا کی مختلف منازل کی جانب روانہ کر دیا گیا ہے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سی پیک کا آغاز ہو گیا ہے اور یہ استعمال ہو رہا ہے؟

اس کا مختصراً جواب تو 'نہیں' ہے۔ تفصیلی جواب یہ ہے کہ 'ابھی تک تو نہیں۔'

وہ قافلہ جو کنٹینرز کو گوادر تک لایا اور بندرگاہ پر تختیوں کی نقاب کشائی کے ساتھ پہلی کھیپ بھیجنے کی جو تقریب ہوئی، وہ کوئی کمرشل سرگرمی نہیں تھی بلکہ ایک جبری دھکا تھا جس میں زیادہ حصہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کا تھا، جس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے گرد پیدا ہونے والی ’ناامیدی و مایوسی‘ کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا، اور اس سے مقصد میں مدد بھی ملی ہے۔

منصفانہ طور پر کہیں تو ناامیدی تو بلاشبہ ختم ہوئی، اور بلاشبہ اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ اس قدر بڑے کارگو کو سنبھالنے کے لیے سڑکیں اور بندرگاہ کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔

مگر اسے ممکن بنانے کے لیے کیا کچھ کیا گیا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے ان چند تفصیلات پر غور کریں۔ اول، چینیوں کو خدشات لاحق تھے، انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ منصوبہ ابھی تجارتی طور پر قابلِ استعمال نہیں ہے اور حکومت کو بھی ایسا محسوس ہوا کہ اتنے بڑے کام کو کرنا ابھی تھوڑا قبل از وقت ہوگا۔

چینیوں نے اپنے خدشات کا مختصراً اظہار اس وقت کیا جب یووان جیان مین، جو سائینوٹرانس کمپنی، جس نے چین سے مال بردار کاروان کا انتظام کیا، کے ایک ایگزیکٹیو ہیں، نے کہا کہ، "ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر چند علاقوں میں" جہاں لوگوں کو اب بھی سی پیک سے ہونے والے فوائد کے متعلق قائل کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسرا نکتہ چینیوں نے یہ بلند کیا کہ ان کے پاس پاکستان سے سامان برآمد کرنے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں کنٹینرز دستیاب نہیں تھے کیوں کہ زیادہ تر بک شدہ تھے، اس لیے ایک خاص کنسائنمنٹ کا انتظام کیا گیا جس میں صرف اس لیے پاکستانی اشیاء سے لدے کنٹینرز چین بھیجے گئے تاکہ چین کے پاس واپس بھیجنے لائق کنٹینرز کی ایک مناسب تعداد دستیاب ہو سکے۔ اشیاء کی اس خصوصی ترسیل کے مقصد کے لیے گلگت کے ایک تاجر کی خدمات لی گئیں۔

ٹرکوں کے قافلے کے تحفظ کے لیے ایک سکیورٹی حصار بھی ساتھ تھا جس میں ایک سو سے زائد اہلکار شامل تھے اور ٹرکوں جتنی ہی گاڑیاں ساتھ چل رہی تھیں۔ اس کے علاوہ پورے سفر کے دوران ہیلی کاپٹر کے ساتھ ساتھ ڈرون کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔

کنٹینرز کے قافلے کو گوادر پہنچنے میں دو ہفتے سے زیادہ کا عرصہ لگا، لہٰذا اتنی بڑی تعداد میں ٹرکوں کے لیے اسٹاپس کا انتظام کیا جانا تھا جس میں سونے، کھانے پینے اور پارکنگ کی جگہوں کے انتظامات شامل ہیں۔ چند مقامات پر ڈرائیورز کے لیے آرام و بحالی (آر اینڈ آر، اگر میرا اشارہ سمجھ رہے ہوں) کا انتظام کیا جاتا تاکہ ان میں دریائے سندھ کا وہ مغربی راستہ لینے کے لیے حوصلہ پیدا کیا جا سکے جس پر کم ہی لوگ چلتے ہیں۔

صرف کوئٹہ سے گوادر تک ہی سفر میں چار راتیں لگیں، جس میں پانچویں رات گوادر میں گزری۔ راستہ بنجر اور خالی میدانوں سے گزرتا ہے، ماسوائے دو چھوٹے قصبوں (پنجگور اور تربت) کے جس میں گاڑیوں کی مرمت کے لیے سہولیات کا فقدان ہے اور ڈرائیورز کے لیے نہ کھانا لینے کی کوئی جگہ ہے اور نہ ہی رات گزارنے کی کوئی جگہ۔

ایف ڈبلیو او نے این 85 ہائی وے کے ساتھ ٹرکوں کے لیے باقائدہ چار مقامات پر مناسب خیمہ گاہوں کا انتظام کیا جس میں کھانا باہر سے منگوایا گیا تھا۔ اگر ٹرکوں کے لیے مطلوبہ جگہ اور سیکیورٹی اہلکاروں سمیت تمام افراد کی ایک بڑی تعداد کو مدِنظر رکھا جائے، تو یہ نقل و حرکت کے حساب سے ایک کارِ عظیم تھا۔

یہ واضح ہے کہ ٹرکوں کے سفر کرنے کے لیے سڑکیں موجود ہیں، مگر یہ اب بھی کمرشل ٹریفک کے گوادر پورٹ تک سفر کرنے کے لیے مناسب نہیں ہیں۔ انتظامات میں شامل ایک شخص (کمرشل پارٹی) کے مطابق ٹرکوں کی جانب سے لیا جانے والا مغربی روٹ کبھی بھی لاہور یا لاہور کے جنوب سے سامان کی ترسیل کے لیے مناسب نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف خیبر پختونخوا، بالائی پنجاب، گلگت بلتستان اور چین کو فائدہ پہنچائے گا۔

اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان کی زیادہ تر برآمدات لاہور یا لاہور کے جنوب میں واقع علاقوں سے ہوتی ہیں، مغربی روٹ پاکستان کے پیداواری شعبے کے انتہائی چھوٹے حصے کے لیے فائدہ مند ہوگا، یا پھر چینیوں کے لیے، جو اب بھی مغربی روٹ پر سیکیورٹی، اور اسے استعمال کرنے کی قیمتوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

لیکن کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سڑکوں کا یہ جال نہیں بچھایا جانا چاہیے۔ اسے ضرور تعمیر کیا جانا چاہیے، لیکن اسے وقت کے ساتھ ساتھ دو لین سے بڑھا کر چھے لین کرنا ہوگا۔ شاہراہِ قراقرم کو ایک بڑی، کمرشل سڑک کی منزل تک پہنچنے میں تقریباً تین دہائیاں لگی ہیں، اور یہ مرحلہ ابھی بھی بامِ عروج سے بہت دور ہے۔

اور کہنے کا مقصد یہی ہے۔ سی پیک کے مواصلاتی منصوبوں کے تحت بننے والی سڑکیں طویل مدتی منصوبے ہیں۔ انہیں پوری طرح کمرشل ٹریفک سنبھالنے کے لائق بننے میں دو دہائیاں تک لگ سکتی ہیں، مگر جب یہ ہونا شروع ہوگا، تو یہ ضرور پاکستان کے لیے گیم چینجر ہوگا۔

کچھ دھوکے باز ریئل اسٹیٹ ایجنٹس پہلے سے ہی میڈیا کی شہہ سرخیوں کا فائدہ اٹھا کر گوادر میں پراپرٹی یہ کہہ کر مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں، کہ "تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے، اب وہاں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔" اس دھوکے میں مت آئیے گا۔ گوادر میں تجارت اب بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔

اس وقت یہ ضروری ہے کہ ہم کارگو گوادر کی جانب بھیجنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کریں، اگر اس میں فی الوقت کارگو سنبھالنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے ایک تجویز پیش ہے۔ پاکستان سے ہر سال کنٹینروں کی ایک بڑی تعداد خالی واپس جاتی ہے کیوں کہ ہمارا بیرونی دنیا سے تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے، اور کیوں کہ ہم برآمدات سے زیادہ درآمدات کرتے ہیں، اس لیے ملک کے اندر کنٹینروں کا جمع ہونا لازم ہے۔

خالی کنٹینروں کو معمول کے مطابق ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے، اور ان کے ٹرانسپورٹ اور انشورنس کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔ حقیقتاً چند دن قبل گوادر سے جو کنٹینر باہر گئے، ان میں سے آدھے سے زیادہ خالی تھے۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم اب تمام خالی کنٹینروں کو گوادر کے راستے باہر بھیجا کریں؟ اس سے کراچی کی دو بندرگاہوں پر رش کم ہوگا، اور گوادر کی طرف ٹریفک آنی شروع ہوگی۔

بہرحال یہ مشق اب تک کے تعمیر کردہ انفراسٹرکچر کا ایک کامیاب مظاہرہ تھا، مگر یہاں سے اب بھی حقیقی کمرشل ٹریفک کے گزرنے میں کئی سال لگیں گے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 نومبر 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں