اسلام آباد: اپوزیشن کی تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت نے بالآخر قومی اسمبلی سے متنازع انکوائری کمیشن بل منظور کرالیا۔

اجلاس کے دوران دونوں طرف سے گیم پلان موجود تھا، ایک طرف حکومت کو تین بار کوشش کے باوجود بل منظور نہ ہونے پر شدید غصہ تھا تو دوسری جانب اپوزیشن بل منظور کرنے کی اجازت دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی تھی۔

قومی اسمبلی کے سیشن میں خاص طور پر 29 نومبر سے آگے توسیع کی گئی تھی، تاکہ بل منظور کرایا جاسکے، جبکہ حکومت نے اس بار اپنی آستینیں چڑھا رکھی تھیں۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے، جو حکومتی خواہش کے مطابق اجلاس کی کارروائی کو کسی بھی سمت موڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، سب سے پہلے کارروائی کی رفتار کو اراکین کو کیوبا کے آنجہانی رہنما فیڈل کاسترو کو خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت دے کر کم کیا اور پھر اس کے بعد کارروائی کا ایک گھنٹہ وقفہ سوالات کے لیے مختص کردیا۔

اسی دوران جب ایوان میں جوش و خروش پایا جارہا تھا پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن اعجاز حسین جاکھرانی، اپنے حکومتی ہم منصب شیخ آفتاب احمد کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے چہل قدمی کرتے نظر آئے، جبکہ حکومتی اراکین بل پر حمایت حاصل کرنے کے لیے تقریباً تمام اپوزیشن اراکین کے پاس گئے اور انہیں راضی کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں حکومت کی شرمندگی کا سلسلہ جاری

حکومت کو اس لیے بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اِس وقت اس کے تمام اراکین ایوان میں موجود نہیں تھے۔

وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن اراکین کی نشستیں آہستہ آہستہ خالی ہوگئیں اور اپوزیشن کی جانب سے صرف اعجاز جاکھرانی اور شازیہ مری ایوان میں بیٹھے رہے۔

اس دوران وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر نے فیڈل کاسترو کی موت کے حوالے سے شازیہ مری کی جانب سے پیش کی گئی تعزیتی قرارداد پیش کی، جس پر شازیہ مری نے کورم کی نشاندہی کی۔

کورم کی نشاندہی پر اسپیکر نے اراکین کی گنتی کا حکم دیا۔

اسی اثنا میں حکومتی اراکین ایوان میں داخل ہونا شروع ہوئے جس کے بعد حکومتی اراکین کی تعداد بڑھ گئی۔

دو بار گنتی کے باوجود حکومتی اراکین کی تعداد مطلوبہ کم از کم تعداد 86 سے زیادہ تھی، جس کے بعد پی پی اراکین نے کارروائی میں خلل ڈالنے کے لیے ڈیسک بجانا شروع کردی۔

لیکن اسپیکر نے اپوزیشن اراکین کو نظر انداز کرتے ہوئے اجلاس کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔

مزید پڑھیں: حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں پھر ناکام

سب سے پہلے پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016 کی منظوری دی گئی، اس کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ترمیم اور آخر میں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بل 2016 کی منظوری دی گئی۔

منظوری کے بعد جب ایاز صادق نے اعجاز جاکھرانی کو حکومتی بلوں کے خلاف بات کرنے کا کہا تو انہوں نے اس ’آمرانہ‘ طرز عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایوان سے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

لیکن ایاز صادق اپوزیشن کے اس اعلان کو بھی کسی خاطر میں نہ لائے اور کشمیر امور کے وزیر برجیس طاہر کو اپوزیشن کو منانے کا کہتے ہوئے اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی۔

برجیس طاہر اپوزیشن لابیز سے چند اراکین کو منا کر ایوان میں لے آئے تاکہ کشمیر میں بھارتی ظلم اور لائن آف کنٹرول پر اس کی اشتعال انگیزی کے خلاف قرارداد منظور کرائی جاسکے۔

لیکن اس وقت تک پیپلز پارٹی کے اراکین جاچکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت انکوائری کمیشن بل منظور کرانے میں ناکام

کمیشن کا قانون

اس نئے قانون کا مسودہ اس وقت تیار کیا گیا جب چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے وزیر اعظم نواز شریف کو جوابی خط لکھتے ہوئے پرانے قانون کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دینے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بل ایوان زیریں میں متعارف کرایا گیا، جہاں متعلقہ قائمہ کمیٹی نے اس کی فوری منظوری دے دی اور اسے منظوری کے قومی اسمبلی بھجوا دیا۔

تاہم حکومت تین بار کوشش کے باوجود قومی اسمبلی سے یہ بل منظور کرانے میں ناکام رہی۔

اس بل کا مقصد مستقبل میں کسی مسئلے پر قائم کیے جانے والے انکوائری کمیشنز کو مضبوط کرنا ہے، جبکہ اس کے تحت کمیشن کو انکوائری کے نتائج شائع کرانے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔

مجوزہ قانون کے تحت کمیشن کو بین الاقوامی ٹیمیں تشکیل دینے اور بیرون ممالک اور ایجنسیوں سے کوئی معلومات، دستاویزات، شواہد اور ریکارڈ حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔


یہ خبر یکم دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں