کراچی: سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ (ایس آئی بی) کے سابق سربراہ خواجہ عبد المجید کے مطابق 7 دسمبر کو حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہونے والے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے طیارے اے ٹی آر 42 کے حادثے کی بنیادی وجوہات تو چند ہفتوں میں سامنے آجائیں گی مگر ایک جامع تحقیقاتی رپورٹ آنے میں 6 ماہ سے ایک سال کا دورانیہ درکار ہوتا ہے۔

ایس آئی بی کے سابق چیف کے مطابق ماضی میں اس طرح کی کئی تحقیقات سیفٹی بورڈ کے حوالے کی گئیں، ایسے حادثات کی تحقیقات کے لیے متاثرہ جہاز کے 2 ٹکڑے یعنی کاک پٹ وائس ریکارڈ (سی وی آر) اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر(ایف ڈی آر) کافی مدد گار ثابت ہوتے ہیں، ان کو بلیک باکس بھی کہا جاتا ہے، جنھیں طیارے کی محفوظ ترین جگہ پر رکھا جاتا ہے۔

خواجہ عبدالمجید کے مطابق سی وی آر میں طیارے کی تمام گفتگو جب کہ ایف ڈی آر میں طیارے کے تمام آلات کے کام کرنے کی تفصیل موجود ہوتی ہے، عام طور پر ایئر لائن کمپنیاں ان دونوں آلات کو پڑھنے اور ڈی کوڈنگ کی سہولت فراہم کرتی ہیں، تاہم حادثے کی صورت میں بلیک باکس کو نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے، اس لیے ایئرلائن کمپنیاں ریکارڈ کو محفوظ بنانے کے لیے بلیک باکس کو ڈی کوڈ کرنے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیارے کا بایاں انجن فیل ہوگیا تھا، ابتدائی رپورٹ

سیفٹی بورڈ کے سابق چیئرمین کے مطابق حادثے کے بعد بلیک باکس کو جہاز بنانے والی کمپنی کے پاس بھیجا جاتا ہے، حویلیاں میں حادثے کا شکار ہونے والا اے ٹی آر جہاز فرانس کا تھا، اس لیے بلیک باکس کو اے ٹی آر کی لیبارٹری میں بھیجا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ اگر پاکستانی ساختہ ہوتا ہے تو بلیک باکس کی ڈی کوڈنگ کے وقت سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے نمائندے بھی لیبارٹری میں موجود ہوتے ہیں۔

خواجہ عبدالمجید نے مزید کہا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کی ابتدائی رپورٹ ایک ہفتے میں ہی آجاتی ہے، جس میں حادثے کا سبب بیان کرتے ہوئے خراب موسم کی صورتحال، فنی خرابی، انسانی غلطی یا پھر دیگر وجوہات کا تعین کردیا جاتا ہے ۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق

ایس آئی بی کے سابق سربراہ نے بتایا کہ سیفٹی بورڈ عام طور پر ابتدائی رپورٹ ایک ماہ میں تیار کرلیتا ہے اور رپورٹ میں پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے)، ہلاک ہونے والے شہریوں، جہاز بنانے اور جہاز کے آلات بنانے والے اداروں سے حاصل شدہ معلومات شامل کی جاتی ہیں۔

خواجہ عبدالمجید کے مطابق سی اے اے اور عالمی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) کے اصولوں کے مطابق جہاز حادثے کی رپورٹ 6 ماہ سے ایک سال کے اندر مکمل ہونی چاہیے۔

ان کے مطابق اس وقت سیفٹی بورڈ کوئی تحقیقات نہیں کر رہا، اس لیے سیفٹی بورڈ کو پی کے 661 کی تحقیقات میں اتنا وقت نہیں لینا چاہیے۔

سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کے سابق سربراہ نے کہا کہ حادثے کی جامع رپورٹ کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کرکے آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کے لیے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

یہ خبر 9 دسمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں