راولپنڈی: حویلیاں کے قریب پہاڑوں پر گر کر حادثے کا شکار ہونے والا پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کے طیارے ’اے ٹی آر 42‘ نے 13 ہزار 375 فٹ کی بلندی تک روانی سے پرواز کی جس کے بعد اس کے بائیں انجن نے کام کرنا چھوڑ دیا اور انجن کے دھماکے نے وِنگ کو نقصان پہنچایا۔

یہ بات ڈان کو دستیاب سول ایوی ایشن اتھارٹی کی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں سامنے آئی۔

واضح رہے کہ حادثے کی وجوہات کے حوالے سے اب تک پی آئی اے نے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی۔

قبل ازیں کہا گیا تھا کہ حادثے کی اصل وجوہات اُسی وقت سامنے آئیں گی جب جہاز کے بلیک باکس کے ڈیٹا کا تجزیہ مکمل کرلیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: طیارہ حادثہ: میتیں ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے پمز ہسپتال منتقل

رپورٹ کے مطابق طیارہ غیر متوازن طریقے سے پرواز کر رہا تھا جس کے بعد وہ تیزی سے نیچے آیا اور گر کر تباہ ہوگیا۔

جہاز کے غیر متوازن ہونے کا آغاز تقریباً 4 بج کر 12 پر ہوا، جس کے بعد پائلٹ نے اس کے ایک انجن خراب ہوجانے کی رپورٹ دی اور پھر چند لمحوں کے دوران طیارہ اپنی اونچائی کھوتے ہوئے پہاڑوں پر جاگرا۔

سول ایوی ایشن کی ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خرابی سامنے آنے کے بعد جہاز چند ملی سیکنڈز کے لیے مستحکم رہا اور پائلٹ نے اس پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کرلیا تھا لیکن اس کے چند منٹوں بعد ہی وہ ریڈار سے غائب ہوگیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ATR 42-500 ایئرکرافٹ کے حالیہ ورژنز میں سے ایک ہے، اس کی پہلی ڈیلیوری 1995 میں ہوئی، جبکہ پی آئی اے کو یہ طیارہ 14 مئی 2007 کو دیا گیا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا طیارہ گر کر تباہ، 48 افراد جاں بحق

اس جہاز کا انجن 2014 میں بھی ایک بار خراب ہوا تھا، جس کے بعد اسے تبدیل کردیا گیا اس کے بعد سے یہ روانی سے پرواز کر رہا تھا، جبکہ جہاز کا انجن محفوظ اور مضبوط ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی موجود تھا۔

حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہونے سے قبل یہ جہاز 18 ہزار 740 گھنٹوں کی مسافت طے کرچکا تھا، حادثے سے قبل موسم بھی معمول کے مطابق تھا، جبکہ طیارے کے پائلٹ کو شمالی علاقوں کا وسیع تجربہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق ’پی کے 661 فلائٹ کو ساخت کے لحاظ سے نقصان پہنچا تھا اور چونکہ جہاز بغیر کنٹرول کے گرا، ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پائلٹ جہاز پر قابو کھو چکا تھا اور طیارہ گلائیڈ کرنے میں ناکام رہا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اگر اے ٹی آر کے دونوں انجن بند ہوجائیں یا کام کرنا چھوڑ دیں، تب بھی یہ طیارہ گلائیڈ کر سکتا ہے۔‘

یہ بھی جانیں: جنید جمشید فضائی حادثے میں جاں بحق

تاہم طیارہ اس وقت بے قابو ہوکر گر جائے گا جب اس کی ساخت کو نقصان پہنچا ہو اور اس وقت اس بات کے امکانات ہیں کہ خراب انجن پھٹ جائے اور اس سے منسلک وِنگ کو نقصان پہنچے۔

پائلٹس کے پاس جہاز کا انجن بند کرنے کا طریقہ ہوتا ہے اور انجن بند کرنے سے قبل اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ جہاز کی اونچائی اور رفتار کم کی جائے تاکہ اس کی باہر کی صورتحال کی ایروڈائنامکس سے ہم آہنگی ہوسکے اور پی کے 661 کے پائلٹس سے ایسا ہی کیا تھا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پائلٹس خرابی کا شکار ہونے والے انجن کو یک دم بند نہیں کرتے، بلکہ وہ جہاز کو ایک خاص اونچائی اور رفتار تک لاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقنی بنایا جاسکے کہ دوسرا انجن وزن اور ایروڈئنامکس کو برداشت کرسکے۔

حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے پائلٹ نے ایسا ہی کیا تھا لیکن خراب انجن میں شاید آگ لگ چکی تھی، جس نے وِنگ کو نقصان پہنچایا۔

مزید پڑھیں: ٹیک آف کے کچھ دیر بعد پائلٹ نے مے ڈے کال کی

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جہاز کو کیسے حادثہ پیش آیا اس حوالے سے بظاہر جو نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ پائلٹ نے جہاز کی اونچائی اور رفتار کم کی تھی، جس کے بعد طیارہ ساخت کو نقصان پہنچنے کے باعث بے قابو ہوکر گر گیا، پائلٹ نے خراب انجن کو بند بھی کیا، جو پہلے ہی پھٹ چکا تھا اور اس نے ونگ کو نقصان پہنچایا تھا۔‘

رپورٹ کے مطابق طیارہ اچھی اونچائی اور رفتار پر پرواز کر رہا تھا اس لیے اس کی راہ میں رکاوٹ آنے کے کوئی امکانات نہیں تھے، جبکہ جہاز کا ایندھن بھی کسی طور پر کم نہیں تھا۔

تاہم طیارہ حادثے کی مکمل تفصیلات اس کے بلیک باکس سے حاصل ہونے والی معلومات کی ڈی کوڈنگ کے بعد ہی ممکن ہوگی۔


یہ خبر 9 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں