اسلام آباد: پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ احمدی برادری کے ایک ایک گھر کی حفاظت حکوت کی ذمہ داری ہے، وہ پاکستانی شہری ہیں اور انھیں اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے، میں انھیں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ وہ بالکل خوف محسوس نہ کریں۔

ڈان نیوز کے پروگرام ' نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ خدا کے فضل سے چکوال میں احمدی برادری کی عبادت گاہ پر حملے میں کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا، پولیس اور حکومت کی بروقت مداخلت سے معاملے کو جلد سنبھال لیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے دو ٹوک احکامات جاری کئے ہیں کہ دو ماہ میں اس واقعے کے مقدمے کا فیصلہ ہو جانا چاہیے اس سلسلے میں سات دن میں اس مقدمے کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردیا جائے گا اور ایک ماہ میں ذمہ دار افراد کو سزا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کی جانب سے سوشل میڈیا پر جس طرح کی مہم چلائی جا رہی ہے وہ قابل افسوس ہے، اس طرح کی چیزوں سے جس شر کو ہم کم کرنا چاہتے ہیں وہ اور بڑھ رہا ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر مہم کی ضرورت نہیں۔

واقعے کے حوالے سے وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ کشیدگی کے دوران پولیس معاملے کو سنبھال رہی تھی اس دوران عبادت گاہ کے گارڈز کی جانب سے فائرنگ کی گئی جس سے کئی افراد زخمی ہوئے جبکہ ایک ہلاکت بھی ہوئی۔

مزید پڑھیں:احمدیوں کی عبادت گاہ کا ’گھیراؤ‘ کرنے والا ہجوم منتشر

رانا ثنا اللہ کے مطابق وہاں موجود گارڈز کو فوری ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا انھیں صبر سے کام لیناچاہیے تھا، گارڈز کی فائرنگ کے باعث معاملہ کشیدہ ہوا اگر گارڈ فائرنگ نہ کرتا تو جلوس افہام و تفہیم سے وہاں سے گزر جاتا۔

اس واقعے کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ ہم کسی واقعے کے بعد نقص نکالنے لگتے ہیں کہ پولیس، حکومت سمیت کس نے کیا کوتاہی کی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جہلم کے واقعے میں علاقے کے ڈی پی او نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنی جان پر کھیلتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کو باہر نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا تھا۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اس معاملے میں ہم نے سخت ایکشن لیا اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جارہی ہے اسی طرح کوٹ رادھا کشن واقعے میں پانچ لوگوں کو موت کی سزا دی گئی ہے۔

مسیحی برادری کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات پر بات کرتے ہوئے انھوں کہا کہ ان واقعات کے بعد ہم نے ان کی بہتری کے لیے کافی کام کیا ہے، گوجرہ اور جوزف کالونی میں، جن کا گھر جلا گیا تھا انھیں گھر فراہم کیا گیا اور جن کا جانی یا مالی نقصان ہوا ان کی مدد بھی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:قرآن پاک کی 'بے حرمتی' ، جہلم میں فوج طلب

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ گوجرہ کیس میں ہم نے بھرپور کوشش کی کہ سزا اور جزا کا عمل مکمل ہو لیکن وہاں لوگوں نے کہا کہ ہماری صلح ہو گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ جب سزا اور جزا کے عمل سے بچتے ہیں تو یہ چیزیں آگے بڑھتی ہیں۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق پنجاب میں نفرت انگیز تقاریر اور مدارس پر کام کیا گیا ہے، ان معامالات پر سزاوں اور جرمانے کو بڑھایا گیا ہے، جس کی وجہ سے حالات کنٹرول میں اور بہتر ہیں۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں پنجاب کے ضلع چکوال کے گاؤں ڈھلمیال میں ایک ہزار کے قریب مشتعل ہجوم نے احمدی برادری کی عبادت گاہ کو گھیرے میں لیا تھا۔

کشیدگی کے بعد پولیس کی جانب سے ہجوم کو منتشر کر دیا گیا تھا تاہم چواس سیداں پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد نواز کے مطابق عبادت گاہ کو سیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔

جبکہ جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین کے مطابق مشتعل ہجوم کی جانب سے بیت الذکر کا گھیراؤ کرکے فائرنگ کی گئی جب کہ پولیس کی جانب سے صورتحال کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔

چکوال کے ڈپٹی کمشنر محمود جاوید بھٹی نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مشتعل ہجوم نے اینٹوں اور پتھروں سے عبادت گا پر حملہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں