چکوال: صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں مبینہ طور پر احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کا گھیراؤ کرنے والے اینٹوں اور لاٹھیوں سے لیس تقریباً ایک ہزار مشتعل مظاہرین کو منتشر کردیا گیا۔

چواس سیداں پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او محمد نواز نے ڈان کو بتایا کہ ہجوم کو منتشر کردیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کیا گیا کہ عبادت گاہ کو سیل کرنا ہے یا نہیں۔

قبل ازیں جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے بتایا تھا کہ 'تقریباً ایک ہزار افراد نے ضلع چکوال کے ضلع ڈھلمیال میں بیت الذکر پر دھاوا بول دیا اور پتھراؤ کرنے کے ساتھ ساتھ فائرنگ بھی کی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مشتعل ہجوم نے بیت الذکر کا گھیراؤ کرلیا جبکہ پولیس صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی'۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈپٹی کمشنر چکوال محمود جاوید بھٹی نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے اینٹیں اور پتھر پھینکے جس کے بعد انہوں نے عبادت گاہ پر دھاوا بول دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض مسلح افراد نے علاقے میں موجود احمدیوں پر فائرنگ بھی کی تاہم اب ہجوم کو منتشر کردیا گیا ہے اور عبادت گاہ محفوظ ہے۔

ادھر ایک مقامی پولیس افسر راشد احمد نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مشتعل ہجوم نے عبادت گاہ کے کچھ حصوں کو جلانے کی بھی کوشش کی۔

واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی تاہم جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ واقعے میں ایک شخص ہلاک ہوا تاہم ہلاک ہونے والے کی شناخت نہیں ہوسکی۔

قبل ازیں پنجاب حکومت کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے پیغام میں کہا گیا تھا کہ 'محکمہ داخلہ چکوال میں ہونے والے واقعے کو دیکھ رہا ہے اور مقامی انتطامیہ اور پولیس صورتحال کو کنٹرول میں کرنے کے لیے جائے وقوع پر موجود ہے'۔

یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'ابتدائی تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ دو گروپوں کے درمیان 'غلط فہمی' کی وجہ سے پیش آیا'۔

پنجاب حکومت کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی بھی رنگ، نسل اور ذات کے امتیاز سے قطع نظر قانون کے شفاف عملدرآمد پر یقین رکھتی ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ واقعے میں کون سے گروپ ملوث ہیں۔

سیکیورٹی فراہم کرنے کی درخواست

یہ بات بھی منظر عام پر آئی کہ احمدیہ کمیونٹی کی جانب سے 5 دسمبر کو ضلعی کوآرڈینیشن آفیسر کو ایک خط بھیجا گیا تھا جس میں انہیں ڈھلمیال میں واقع عبادت گاہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

خط میں لکھا گیا تھا کہ ’احمدیوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور احمدیوں کی عبادت گاہ پر قبضے کی کوشش کی جاسکتی ہے‘۔

خط میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ گاؤں بوہن اور پچھ ناند سے بھی اسی طرح کی رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔

خط میں درخواست کی گئی کہ ’برائے مہربانی احمدی کمیونٹی کی جان و مال اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے مناسب سیکیورٹی اقدامات کیے جائیں‘۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں بھی صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں مبینہ طور پر قرآن پاک کے مقدس اوراق نذر آتش کرنے پر شہر میں حالت کشیدہ ہوگئے تھے، جس کے بعد امن و امان کے قیام کے لیے فوج طلب کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:قرآن پاک کی 'بے حرمتی' ، جہلم میں فوج طلب

مذکورہ واقعے میں جی ٹی روڈ کے قریب اسمال انڈسٹریل اسٹیٹ کے عقب میں واقع ایک چِپ بورڈ بنانے والی فیکٹری میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کی خبر گردش کر رہی تھی، جس کے بعد مشتعل افراد نے ایک فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔

جبکہ پولیس نے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں فیکٹری کے سیکیورٹی ہیڈ قمر احمد طاہر کو گرفتار کرلیا تھا، جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے بتایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں