بلوچستان کرپشن کیس: ’6 ارب میں40 ارب روپے کی کرپشن نہیں ہوسکتی‘

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2016
ڈی جی نیب نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کی —فوٹو: ڈان نیوز
ڈی جی نیب نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کی —فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کرپشن کے سنگین الزامات میں ملوث مشتاق احمد رئیسانی کو ’کلیئر‘ قرار دیئے جانے کے بعد ڈی جی آپریشنز نیب ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ 6 ارب روپے میں سے 40 ارب کی کرپشن نہیں ہوسکتی۔

میڈیا سے گفتگو میں ڈی جی آپریشنز نیب کا کہنا تھا کہ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ پلی بارگین کی منظوری کو کچھ لوگوں نے بہت منفی انداز میں دیکھا۔

ان کا بتانا تھا کہ مالی سال 15-2014 کے لیے وزارتِ خزانہ کو ادا کیے جانے والے فنڈز کی مالیت 6 ارب روپے تھی، جس میں سے 3 ارب روپے ملزمان سے ضبط کیے جاچکے ہیں۔

ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ ’6 ارب روپے میں سے 40 ارب کی کرپشن نہیں ہوسکتی‘۔

ان کے مطابق ضبط کی جانے والی ساری رقم اس سال کی نہیں بلکہ ان کے کام کے دوران جمع کی گئی رقم ہے اور یہ نیب کی تاریخ میں ملزمان سے حاصل کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

ڈی جی آپریشنز نے یک مشت اتنی بڑی رقم حاصل کرنے کو ایک ریکارڈ بتایا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان کرپشن اسکینڈل: پلی بارگین کی درخواست منظور

ڈائریکٹر جنرل آپریشنز نیب نے سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی کی جانب سے پلی بارگین کے بدلے حوالے کی جانے والی رقم اور جائیداد کی تفصیل بھی میڈیا کے سامنے پیش کی۔

ظاہر شاہ کا بتانا تھا کہ مشتاق احمد رئیسانی 65 کروڑ 32 لاکھ روپے کی رقم سمیت 3ہزار 300 گرام سونا نیب کے حوالے کرچکے ہیں، اس کے علاوہ کوئٹہ میں 6 کروڑ روپے مالیت کا شاندار گھر اور ڈی ایچ اے کراچی میں واقع 7 کروڑ روپے مالیت کا گھر بھی ان کی جانب سے نیب کے حوالے کیا جاچکا ہے۔

ڈی جی آپریشنز نیب کا بتانا تھا کہ یہ جائیداد مئی میں سامنے آنے والی 11 جائیدادوں کے علاوہ ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال مئی میں مشتاق احمد رئیسانی کے گھر سے 73 کروڑ روپے کی برآمدگی کے بعد کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں بھی ان کے نام پر خریدی گئی جائیدادوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔

ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے سے قبضے میں موجود ان 11 جائیدادوں کی قیمت خرید ایک ارب 25 کروڑ روپے کے قریب ہے اور فروخت سے 2 ارب روپے تک حاصل ہو جائیں گے۔

ڈی جی آپریشنز نیب کے مطابق ان جائیدادوں میں 2 کمرشل پلازہ، تین 500 مربع گز کے شاندار بنگلے، 3 ایک ہزار مربع گز کے بنگلے جبکہ 6 رہائشی پلاٹس شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: مشتاق رئیسانی کے خلاف کافی ثبوت ہیں، نیب

اس کے علاوہ انہوں نے مشتاق احمد رئیسانی کی ملکیت میں موجود 2 قیمتی گاڑیوں کے متعلق بھی میڈیا کو بتایا، ڈی جی آپریشنز کے مطابق ملزم سے حاصل ہونے والی مرسڈیز اور گرینڈی کرولا کی کل مالیت 80 لاکھ روپے ہے اس طرح ان سے 80 کروڑ روپے حاصل کیے جاچکے ہیں جبکہ 11 جائیدادوں سے وصول ہونے والے سوا ارب روپے اس کے علاوہ ہیں۔

پلی بار گین کرنے والے دوسرے ملزم صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ سے متعلق بات کرتے ہوئے ظاہر شاہ کا کہنا تھا کہ اس نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے ہاتھ میں خود بہت کم رقم آئی اور وہ صرف ان کا سہولت کار تھا۔

ڈی جی آپریشنز کے مطابق سیکریٹری خزانہ کے سہولت کار نے اپنے اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم نیب کے حوالے کرنے کا کہہ دیا ہے اور یہ رقم 96 کروڑ یا تقریبا ایک ارب بنتی ہے۔

سہیل مجید شاہ کی جائیداد سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے نام پر موجود کچھ گھر اس کی وراثت کا حصہ ہیں اور کچھ اس نے خود بنائے، نیب مزید تحقیقات کے بعد وراثتی گھروں کو چھوڑ کر باقی جائیدادیں بھی ضبط کرلے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس طرح دونوں افراد سے کرپشن کے زمرے میں سوا تین ارب روپے حاصل کیے جاچکے ہیں اور مشیر خزانہ خالد لانگو سمیت دیگر سینئر افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔

ظاہر شاہ کا مزید بتانا تھا کہ ان تمام افراد کے اکاؤنٹس سیز ہیں اور اس میں مزید پیسہ موجود ہے، مشیر اور سینئر افسران کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہوتے ہی ان کا کیس عدالت میں بھیج دیا جائے گا۔

پلی بارگین سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے ڈی جی آپریشنز نیب کا کہنا تھا اسے قانونی اصطلاح میں ڈی میننگ کنوکشن کلاس کہا جاتا ہے جس کے تحت مجرم کو صرف جیل نہیں جانا پڑتا لیکن باقی سزائیں برقرار رہتی ہیں جس میں تین اہم چیزیں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے 73 کروڑ روپے برآمد

ان کے مطابق مجرم سے ان کا عہدہ لے لیا جائے گا جبکہ 10 سال کے لیے وہ سرکاری ملازمت نہیں کر سکتے جبکہ 10 سال بعد ان کی عمر اتنی نہیں رہتی کہ وہ سرکاری ملازم بن سکیں۔

ان کا مزید بتانا تھا کہ جرم ثابت ہونے کے بعد مجرم کسی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی اسٹیٹ بینک کے زیر کنٹرول کسی بینک سے قرضہ لے سکتا ہے۔

پلی بارگین کے اثرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پلی بارگین کرنے والا شخص کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور ماضی میں جس کسی نے ایسا کیا ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑا کیونکہ ان کے مجرم ہونے کی وجہ سے ان کے بچوں کو بھی مستقبل میں سرکاری نوکریاں حاصل کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق احمد رئیسانی اور صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کی اربوں روپے کے کرپشن اسکینڈل میں پلی بارگین کی درخواست منظور کی تھی۔

چیئرمین قمر زمان چوہدری کے زیر صدارت ہونے والے نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں طے پایا تھا کہ پلی بارگین کے تحت مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید شاہ 2 ارب روپے سے زائد نیب میں جمع کرائیں گے۔

ترجمان نیب کے مطابق پلی بارگین کے تحت یہ نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی وصولی ہوگی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Dec 22, 2016 05:28pm
السلام علیکم: مالی سال 15-2014 کے لیے وزارتِ خزانہ کی جانب سے بلوچستان کو ادا کیے جانے والے فنڈز کی مالیت 6 ارب روپے تھی۔ آدھے پاکستان کے لیے 6 ارب جاری کرنے والوں کو شرم بھی نہیں آتی، کرپشن کرنے والے تو ویسے ہی اللہ کی پھٹکار کے مستحق ہیں، یہ بات اچھی ہے کہ ان کی اولادوں کے لیے بھی سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ خیرخواہ