کراچی: سندھ حکومت نے صوبے کے 10000 مدارس میں سے 2309 غیر رجسٹر یا غیر قانونی طور پر چلنے والے مدارس کو بند کردیا ہے جبکہ دیگر 7724 مدارس کی جیو ٹیگنگ (نقشے پر شناخت کا کام) مکمل کرلیا گیا۔

حکام کے مطابق سندھ کے مدارس میں 10 لاکھ کے قریب طلب علم رجسٹر ہیں جن میں 818 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔

صوبائی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق اسپیشل برانچ نے 7724 مدارس کی شناخت کا عمل مکمل کیا۔

سندھ وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ 'ہم نے قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی کی جانب سے دیا جانے والا کام مکمل کرلیا ہے اور اب سندھ میں موجود تمام مدارس کے مقام سے ہم مکمل طور پر واقف ہیں'۔

جیو ٹیگنگ یا شناخت کے عمل سے مراد ان مدارس کے محل وقوع کے حوالے سے ڈیجیٹل میپ (نقشے) کو مکمل کرنا ہے تاکہ حکام جب اور جہاں چاہیں ان کا ڈیٹا حاصل کرسکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے سندھ بھر میں 2309 مدارس کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند کیا، ان میں سے کچھ غیر قانونی زمین پر قبضہ کرکے بنائے گئے تھے، دیگر غیر رجسٹر تھے اور کچھ حکومت کی اجازت کے بغیر چلائے جارہے تھے'۔

کراچی میں قائم 3733 مدارس میں سے 623 کو بند کیا گیا جبکہ حیدرآباد میں 2201 مدارس میں سے 910 کو بند کیا گیا۔

صوبے کے دیگر حصوں میں سکھر میں 1536 مدارس میں سے 420، میرپور خاص میں 750 مدارس میں سے 281 اور لاڑکانہ میں 1037 مدارس میں سے 75 کو بند کیا گیا، یہ مدارس یا تو غیر رجسٹر تھے یا غیر قانونی طور پر چلائے جارہے تھے۔

مدارس بل

تاہم سینئر حکام کو دینی مدارس بل 2016 کے لیے پیش کی گئی ایک رپورٹ کو صوبائی حکومت اب بھی منظور کرنے سے قاصر ہے۔

اس بل کو قانونی شکل دینے کیلئے صوبائی کابینہ کی جانب سے منظوری دی جاچکی ہے تاہم سندھ حکومت اس بل پر مختلف مذہبی گروپوں کی جانب سے ہونے والی تنقید، جن میں کچھ کالعدم تنظیمیں بھی شامل ہیں، کی وجہ سے منظور کرانے میں ناکام ہے۔

بل کی کچھ نمایاں خصوصیات کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس قانون میں مدرسے کے قیام یا قائم کرنے کی تجویز اور اس کی زمین کی ملکیت کی تصدیق کیلئے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہوگی۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ قانون مدارس کے مالکان اور منتظمین کو پابند کرے گا کہ وہ سپریٹنڈنٹ آف پولیس سے بھی عدم اعتراض کا سرٹیفیکیٹ حاصل کریں اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (سی بی سی اے) سے تعمیرات کیلئے منظور شدہ پلان حاصل کریں۔

اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا کہ انھیں مذکورہ قانون کے تحت وزارت مذہبی امور سے بھی منظوری حاصل کرنا ہوگی، جس کے مطابق مذہبی تعلیم کے حوالے سے مدارس کو مذکورہ معیار پورا کرنا ہوگا۔

صوبائی حکام کو مذکورہ کام کی تکیمل میں ایک سال سے زائد کا عرصہ لگا جبکہ اسلام آباد کی خواہش تھی کہ اسے گذشتہ سال مکمل کرلیا جائے۔

صوبائی وزارت داخلہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'اس سے قبل ہم یہ سمجھتے تھے کہ پورے کام میں ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوگا، تاہم یہ بہت زیادہ ہمت والا کام تھا، جس میں ہمیں کئی ماہ لگ گئے'۔

اسلام آباد کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مدارس کی جیو ٹیگنگ، نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نقطہ تھا تاکہ دہشت گردی کی بنیاد کو ختم کیا جائے۔

عسکریت پسندی کی تعلیم

ایک ماہ قبل سندھ حکومت نے شہر کے 93 مدارس کی نشاندہی اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا منصوبہ بنایا تھا، ان مدارس پر عسکریت پسندی کی تعلیم دینے کا الزام تھا۔

تاہم مذکورہ رپورٹ اس حوالے سے خاموش ہے اور اس میں ان مدارس کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

حکام کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے مدارس کی جیو ٹیگنگ کا کام گذشتہ سال مکمل کرلیا تھا جس میں صوبے کے 13000 مدارس کی جانچ پڑتال کی گئی۔

اسی طرح خیبر پختونخوا نے صوبے کے 3000 مدارس کی جیو ٹیگنگ کا کام مکمل کرنے کے بعد 150 مدارس کو حساس قرار دیا جبکہ بلوچستان میں مدارس کی جیو ٹیگنگ کا کام کچھ عرصے قبل مکمل کرلیا گیا تھا۔

سندھ میں اسی طرح کے کام کے حوالے سے حکام کا کہنا تھا کہ صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے انتہائی مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جو کام کی تکیمل میں وقت طلب کرنے کا باعث تھے۔

یہ رپورٹ 24 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں