افغانستان کی پہلی خاتون پائلٹ نیلوفر رحمانی نے ڈیڑھ سال کی تربیت مکمل کرنے کے بعد امریکا سے پناہ کی درخواست کردی ہے جس پر افغانستان کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔

غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت دفاع نے نیلوفر رحمانی کی جانب سے وطن واپسی پر جان کے خطرے کے باعث امریکا میں پناہ کی درخواست کے حوالے سے میڈیا میں گردش کرنے والی خبروں کی تصدیق کردی ہے۔

25 سالہ پائلٹ نیلوفر رحمانی کو امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 2015 میں 'جرات مند خاتون' کا ایوارڈ دیا گیا تھا جو افغانستان میں دس سالہ خانہ جنگی کے بعد بہتر ہوتے حالات کے ساتھ ہی ملک کی خواتین کے لیے ایک مثال بن گئی تھیں۔

افغانستان کی وزارت دفاع کے ترجمان محمد رادمنیش نے کہا کہ حکومت کو امید ہے کہ امریکی حکام پائلٹ کی درخواست کو مسترد کریں گے کیونکہ انھوں نے افغان سیکیورٹی اداروں کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب ایک افسر سیکیورٹی کی شکایات کرے اور خطرات سے گھبرائے تو پھر عام لوگ کیا کریں؟'۔

وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ 'انھوں نے اپنے لیے ایک بہانہ تراشا ہے لیکن ہمارے پاس سیکڑوں کی تعداد میں تعلیم یافتہ خواتین اور خواتین کے حقوق کی کارکنان موجود ہیں جو کام کرتی ہیں اور ان کے لیے یہ ملک محفوظ ہے'۔

نیلوفر رحمانی 2012 میں فلائٹ اسکول سے گریجویشن کر کے سی-208 ملٹری کارگو ائرکرافٹ اڑانے کی اہل ہوگئی تھیں اور امریکا میں ٹریننگ کورس میں تھیں جس کے بعد انھیں واپس افغانستان آنا تھا۔

نیلوفررحمانی کا کہنا تھا کہ انھیں اور ان کے اہل خانہ کو نہ صرف طالبان کی جانب سے بلکہ چند رشتہ داروں کی جانب سے بھی براہ راست دھکمیاں وصول ہوئیں جس کے باعث ان کے گھر والوں کو کئی دفعہ اپنی رہائش منتقل کرنا پڑی۔

دوسری جانب افغانستان کے سوشل میڈیا پر بھی نیلوفر کے لیے بہت کم ہمدردی پائی جاتی ہے اور اکثریت اس فیصلے کو افغان عوام کے ساتھ دھوکا قرار دے رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں