لنڈی کوتل: وفاقی حکومت اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے متاثرہ علاقوں کے ہجرت کرنے والے افراد کو رواں سال کے اختتام تک گھروں میں دوبارہ بسانے کے اعلان کے باوجود خیبر ایجنسی کی وادئ تیرہ کے سیکڑوں خاندان انتظامیہ کے واپسی کے اعلان کے منتظر ہیں۔

جمرود میں موجود ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان سرحد کے قریب وادئ تیرہ کے علاقے سے 2012 میں ہجرت کرنے والے 1800 کوکی خیل خاندانوں کی رجسٹریشن بھی نہیں کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2014 میں وادئ تیرہ میں جاری متاثرہ افراد کی واپسی کے عمل کے باوجود ایک خاندان بھی علاقے میں واپس نہیں جاسکا ہے اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی مدد ہی فراہم کی گئی ہے۔

علاقے کی پولٹیکل انتظامیہ کے عہدیدارنے بتایا کہ رواں سال کے آغاز میں خیبر ٹو آپریشن کے اختتام کے باوجود سیکیورٹی فورسز نے کوکی خیل کے علاقے کو کلیئر کرنے کے حوالے سے اعلان نہیں کیا۔

دوسری جانب کوکی خیل میں عسکریت پسندوں کے دباؤ کے باوجود 1200 بار قمبر خیل خاندانوں کو ان کے گھروں کو واپس بھیج دیا گیا جس کی سرحدیں کرم قبائلی علاقے سے ملتی ہیں اور اسے کافی عرصے قبل دہشت گردوں سے خالی کرالیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ انتطامیہ نے قمبر خیل سے تعلق رکھنے والے خاندانوں جن میں جٹ دارا، اوچ ناؤ، تاجو اور یاگو میلہ کے لوگ شامل ہیں کو رواں سال کے آغاز سے راشن کی فراہمی معطل کررکھی ہے۔

اس کے بعد کرم ایجنسی کے علاقے سادا کے قریب قائم نیو درانی کیمپ کو بند بھی کردیا گیا جہاں بہت سے قمبر خیل سے تعلق رکھنے والے خاندان رہائش پذیر تھے کیونکہ ان کے رضاکارانہ واپسی کے فارم (وی آر ایف) میں مسائل موجود تھے۔

متاثرہ خاندانوں کی جانب سے ترجمان واجد خان نے ڈان کو بتایا کہ ان کے واپسی کے عمل میں تاخیر کے حوالے سے انھیں آگاہ نہیں کیا جارہا۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم نے واپسی کے عمل کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے بھی مناسب جواب نہیں دیا'۔

انھوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے 1000 خاندانوں کی واپسی کیلئے کوئی متبادل انتظام کیے بغیر انھیں نیو درانی کیمپ سے بے دخل کردیا ہے۔

ایک متاثرہ شخص کا کہنا تھا کہ 'ہم نے 3 مرتبہ ہجرت کی، پہلی مرتبہ عسکریت پسندوں کی وجہ سے وادئ تیرہ سے، دوسری مرتبہ درانی کیمپ کے کرائے کے مکانات سے، اور تیسری مرتبہ رواں سال مذکورہ کیمپ سے بھی'۔

انھوں نے مزید بتایا کہ رضاکارانہ واپسی فارم جاری ہونے کے بعد حکام کی جانب سے مہاجرین کی امداد روک دی جاتی ہے۔

واجد خان، جنھوں نے اپنے کچھ قبائلی افراد کے ساتھ مذکورہ علاقے کا ایک خفیہ دورہ بھی کیا ہے، نے بتایا کہ گذشتہ 4 سال میں بارشوں اور برف باری کی وجہ سے ان کے مکانات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے مکانات سے گھریلو استعمال کی اشیاء چوری کی گئی ہیں جبکہ انھوں نے ہمسایہ کرم قبائل پر جٹ دارا اور اس کے اطراف کے علاقوں کے جنگلات کاٹنے کا الزم بھی عائد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے مثبت رد عمل نہ آیا تو بار قمبر خیل کے مہاجرین پشاور میں گورنر ہاؤس اور خیبر ہاؤس کے باہر 27 دسمبر بروز منگل کو مظاہرہ کریں گے۔


یہ رپورٹ 27 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں