اسلام آباد: حکومت نے چیئرمین نیب کا پلی بارگین کا اختیار ختم کردیا، جبکہ اس حوالے سے صدارتی آرڈیننس بھی جاری کردیا گیا۔

صدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے احتساب سے متعلق نیب ترمیمی آرڈیننس 2017 جاری ہونے کے بعد چیئرمین نیب کا پلی بارگین کا صوابدیدی اختیار ختم ہوگیا ہے۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق اب پلی بارگین کی منظوری عدالت دے گی، پلی بارگین کرنے والا شخص عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا، جبکہ سرکاری ملازمت والا شخص پلی بارگین کرنے پر ملازمت سے فارغ تصور کیا جائے گا۔

قبل ازیں اسلام آباد میں قوانین جائزہ کمیٹی کے ارکان وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اور وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے نیب آرڈیننس کی شق 25 اے میں ترامیم کا آرڈیننس جاری کرنے کا اعلان کر دیا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ آرڈیننس کے تحت بلی بارگین اور رضا کارانہ رقم کی واپسی کو ضم کر دیا گیا ہے اور کرپشن کی رقم کی رضا کارانہ واپسی سے فائدے اٹھانے والوں پر سرکاری اور عوامی عہدے رکھنے پر تاحیات پابندی ہوگی جبکہ اس کی منظوری عدالت دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ احتساب سے متعلق ایک آرڈیننس کا نوٹیفکیشن آج رات 12 بجے جاری کردیا جائے گا اور کل بروز اتوار (8 جنوری) سے یہ آرڈیننس نافذ العمل ہوجائے گا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ اسے پیر (9 جنوری) کو سینیٹ میں پیش کردیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ وزیراعظم کی تجویز ہے کہ پلی بارگین میں عدالتی منظوری بھی ہو اور تاحیات پابندی بھی شامل ہو۔

اسحٰق ڈار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ بل کے ذریعے پیش کرنے کی صورت میں معاملہ تاخیر کا شکار ہوسکتا تھا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پلی بارگین سے متعلق حکومتی موقف طلب کیا تھا۔

اس موقع پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) سے سزاپانے والے نا اہل نہیں ہوتے جس پر تنقید ہورہی تھی، لیکن اب بدعنوانی کے خلاف تاریخی ترمیمی آرڈیننس جاری کیا جارہا ہے۔

مزید پرھیں:چیئرمین نیب کی جانب سے 'پلی بارگین' قانون کا دفاع

ان کا کہنا تھا کہ پلی بارگین کے تحت رضاکارانہ طور پررقم کی واپسی آرڈیننس میں شامل کی جارہی ہے۔

زاہد حامد نے کہا کہ 'پلی بارگین لفظ ہی غلط ہے، جرم غلط کرنے والے سے بارگین ہونی ہی نہیں چاہیے'۔

وزیر قانون نے کہا کہ کرپشن اور بدعنوانی کا خاتمہ مسلم لیگ (ن) کا منشور ہے۔

آرڈیننس اسمبلی میں بحث کے بعد لانا چاہیے تھا، پی ٹی آئی

حکومتی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان نعیم الحق نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قوانین عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہوتے ہیں لیکن حکومت کی عادت یہ ہے کہ وہ اداروں کے دباؤ کے تحت آرڈیننس جاری کرتی ہے، پلی بارگین سے متعلق اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی میں بحث کے بعد لانا چاہیے تھا۔

ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اگر موجودہ قوانین پر ہی درست انداز نیک نیتی سے عملدرآمد کرلیا جائے تو اس طرح کے نئے قوانین کی ضرورت موجود نہیں رہتی۔

یہ بھی پڑھیں:نیب سے رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار واپس

نعیم الحق نے مزید کہا کہ پلی بارگین والوں کو پیسے تو واپس کرنے ہی چاہئیں، کیونکہ یہ قوم کا پیسہ پوتا ہے، لیکن انھیں سزا بھی ملنی چاہیے اور اس کے لیے سزا کا اطلاق قومی اسمبلی میں عوامی نمائندوں سے باقاعدہ رائے لے کر ہونا چاہیے، کسی بیوروکریٹ کی مرضی کا آرڈیننس نہیں ہونا چاہیے۔

'آرڈیننس میں مزید سختی ہونی چاہیے'

تجزیہ کار طلعت مسعود کا ڈان نیوز سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہنا تھا کہ اس آرڈیننس میں مزید سختی ہونی چاہیے اور نااہلی کے ساتھ ساتھ پلی بارگین کرنے والوں کو سزا بھی ملنی چاہیے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پہلے کے مقابلے میں اب صورتحال کافی بہتر ہے، پہلے اس میں نااہلی شامل نہیں تھی اور دوسرا اب نیب کے بجائے عدلیہ اس بات کا فیصلہ کرے گی تو اس میں بہتری تو آئی ہے، لیکن سزا کا عنصر بھی شامل کرنا چاہیے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mansoor Ali Shaikh Jan 08, 2017 08:38am
In Ordinance why they not include these amendments 1) Those cases which are already resolved by Plea Bargains shall be Open again 2) and it is proof persons return the money are culprits so they will be send to Jail for 20 years