اسلام آباد: فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر پارلیمانی پارٹیز کا پہلا اجلاس کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا کیونکہ اہم سیاسی جماعتیں حکومت کو فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر 'گرین سگنل' دینے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے اور حکومت اس میں مزید دو سال کی توسیع کی خواہش مند ہے۔

اس کے باوجود کہ اہم سیاسی جماعتیں حکومت کے موقف کی تائید نہیں کرتی تاہم انھوں نے اس حوالے سے بات چیت کے آپشن کو کھلا رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے، ان میں پاکستانی پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی (جے آئی)، جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔

ان جماعتوں نے ایک متفقہ موقف اپنایا کہ وہ اپنا فیصلہ فوجی عدالتوں کے گذشتہ دو سال کی کارکردگی کی بنیاد پر کریں گی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والا اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا، تاہم اس میں طے پایا کہ پارلیمانی پارٹیز آئندہ کے 17 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں اپنا فیصلہ سنائیں گی جس میں حکومت فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی وجوہات اور ان کی گذشتہ دو سال کے دوران کارکردگی کی رپورٹ پیش کرے گی۔

اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا ہے کہ اگر آئندہ کے اجلاس میں سیاسی جماعتیں حکومتی موقف کی تائید کرتی ہیں تو فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کیلئے قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔

اجلاس کے بعد قومی اسمبلی کے اسپیکر نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ یہ ابتدائی ملاقات تھی آئندہ کی ملاقات 17 جنوری کو ہوگی جس میں مزید مسائل پر بات چیت کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج کے اجلاس میں فوجی عدالتوں اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر توجہ رہی'۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے آئندہ کے اجلاس سے قبل حکومت کو 6 سوالوں کے جواب دینے کا مطالبہ کیا جس کے بعد ان کی پارٹی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے معاملے پر کوئی فیصلہ سنائے گی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں نے '5 لاپتہ افراد' کو بھی سزائیں سنائیں

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم 6 سوالوں کے جواب چاہتے ہیں اور فوجی عدالتوں کی گذشتہ دو سوال کے دوران کارکردگی کی تفصیلات بھی چاہتے ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ اس کے بعد وہ اپنی جماعت کے سامنے ساری صورت حال رکھیں گے اور اگر ان کی پارٹی نے حکومتی تجویز کی حمایت کی تو وہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی کی تفصیلات فراہم کرنے کیلئے کہیں گے۔

شاہ محمود قریشی نے سوال کیا کہ 'حکومت کب تک فوجی عدالتوں پر انحصار کرے گی؟'

انھوں نے حکومت سے کہا کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور ملک کے امن و امان کے لیے قائم کی جانے والی انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کامیابیوں کی تفصیلات فراہم کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت میں توسیع چاہتی ہے تاہم وہ اپنے دو اتحادیوں کی تائید حاصل کرنے میں ہی ناکام ہے، جس میں جے یو آئی (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن سمجھتی ہے کہ حکومت کو دو سال کیلئے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کہ وہ اس دوران ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات کرے گی۔

شام محمود قریشی نے افسوس کا اظہار کیا کہ 'تاہم حکومت کسی بھی قسم کی اصلاحات پیش کرنے میں ناکام رہی'۔

خیال رہے کہ مذکورہ اجلاس حکومت کی جانب سے گذشتہ روز فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کیلئے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کیلئے آئینی ترمیم متعارف کرنے کے اعلان کے بعد ہوا۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے اجلاس کے دوران اپنا موقف پیش کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اجلاس میں فوجی عدالتوں، آپریشن ضرب عضب اور پارلیمنٹ کی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے معاملات زیر بحث آئے'۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت ختم

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت نے ہر مرحلے پر فوجی عدالتوں کے قیام کا مقابلہ کیا۔

اجلاس میں شریک پی پی پی کے رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے ووٹ دیا تھا تاہم وہ اب ان کی توسیع میں مخالفت کرے گی۔

پی پی پی کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے فوجی عدالتوں پر تفصیلی بریفنگ کے بعد ان کی پارٹی اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے باوجود کہ ہم نے پہلے دن سے فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی تھی تاہم ہم جاننا چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے کتنے دہشت گردوں اور عام مجرموں کو سزائیں دی گئی ہیں'۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ فوجی حکام نے سزائے موت کی تفصیلات صرف ٹوئٹر پر شیئر کیں جن میں ان کے نام، پتہ اور سزا کی وجوہات فراہم نہیں کی گئیں تھی۔

جماعت اسلامی کے شہزادہ طارق اللہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی پارٹی فوجی عدالتوں پر کسی بھی قسم کے فیصلے سے قبل ایک مشاورتی اجلاس کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے بجائے سول عدالتوں کو مضبوط کرنا چاہیے'۔

واضح رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔

ان فوجی عدالتوں کو دو سال کی مدت کے دوران 275 مقدمات ٹرائل کیلئے بھجوائے گئے تھے جن میں 161 'دہشت گردوں' کو سزائے موت دی گئی جبکہ دیگر 116 ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا جن میں سے بیشتر کو عمر قید کی سزادی گئی تھی، جن میں سے متعدد نے اعلیٰ عدالتوں میں اپنی سزاؤں کو چیلنج کیا۔

یہ رپورٹ 11 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

RIZ Jan 11, 2017 09:14am
we don't need any army courts.. why we need when we can make civil courts better.. must start reforms in civil courts and end this chapter of army courts forever.