اسلام آباد: دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث شہریوں کا ٹرائل کرنے کیلئے قائم کی جانے والی خصوصی فوجی عدالتوں نے متعدد لاپتہ افراد کو بھی مجرم قرار دیا۔

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔

ان فوجی عدالتوں کو دو سال کی مدت کے دوران 275 مقدمات ٹرائل کیلئے بھجوائے گئے تھے جن میں 161 'دہشت گردوں' کو سزائے موت دی گئی جبکہ دیگر 116 ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا جن میں سے بیشتر کو عمر قید کی سزادی گئی تھی، جن میں سے متعدد نے اعلیٰ عدالتوں میں اپنی سزاؤں کو چیلنج کیا۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے مبینہ طور پر ایسے ملزمان کے ٹرائل کیے گئے جنھیں انتہائی خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا تھا اور اس دوران انھیں حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے 150 ملزمان کو حراستی مراکز میں رکھا گیا تھا۔

یاد رہے کہ تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کیسز کی سماعت کے دوران لاپتہ افراد کی بڑی تعداد ان حراستی مراکز سے ملی ہے۔

ویسے تو فوجی عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے لاپتہ افراد کی حتمی تعداد نامعلوم ہے تاہم ڈان نے فوجی عدالتوں کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے ایسے 5 ملزمان کی نشاندہی کی ہے جو لاپتہ تھے۔

عبید اللہ کو بنوں جیل پر حملے کے الزام میں فوجی عدالت نے مجرم قرار دیا تھا۔

اپریل 2012 کو بھاری ہتھیاروں سے لیس 150 عسکریت پسندوں نے بنوں جیل پر حملہ کیا تھا اور 400 قیدیوں کو چھڑا کر ساتھ لے گئے تھے جن میں دہشت گرد بھی شامل تھے۔

تحقیقاتی کمیشن میں دائر ایک درخواست کے مطابق ڈیرہ خان کا رہائشی مزدور عبید اللہ 8 جنوری 2012 سے لاپتہ ہے۔

مذکورہ کیس کمیشن میں زیر التوا تھا اور اس دوران عبید اللہ کے اہل خانہ کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا ہے اسے مارچ 2016 میں فوجی عدالت نے سزا سنائی ہے۔

ایک اور 'لاپتہ شخص' محمد غوری اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا جسے دسمبر 2009 کو راولپنڈی مسجد میں نماز کے دوران ہونے والے حملے کا ماسٹر مائینڈ بتایا گیا، اس واقعے میں 37 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

آرمی چیف نے یکم جنوری 2016 کو محمد غوری کی سزائے موت کی توثیق کی تھی۔

تاہم لاہور ہائی کورٹ میں اس کی سزا کے خلاف دائر ایک پٹیشن کے مطابق محمد غوری 7 جنوری 2010 سے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 10 سے لاپتہ ہے۔

محمد غوری کے والد جاوید اقبال غوری، جو پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بھی ہیں، نے اس وقت شالیمار پولیس اسٹیشن جا کر اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔

جمشید رضا عرف چاچا کو دو فوجیوں کے قتل کے الزام میں ستمبر 2015 میں فوجی عدالت نے سزا سنائی تھی۔

جمشید رضا پر 2003 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف پر سول لائن میں حملے کا الزام تھا اور وہ بھاولپور کی سینٹرل جیل سے 2012 کو لاپتہ ہوگیا تھا۔

تاہم پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمشید رضا کی سزا کے حوالے سے اپنے ایک جاری بیان میں کہا تھا کہ 'رضا حرکۃ جہادِ اسلامی کا ایک سرگرم کارکن تھا اور پاکستان فورسز پر حملوں میں ملوث پایا گیا، جس میں دو فوجیوں کا قتل بھی شامل ہے، اس کے قبضے سے آتشی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا، اس نے ٹرائل کورٹ اور مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کیا، اس پر 3 الزامات تھے جس پر اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے'۔

دیگر دو لاپتہ افراد علی رحمٰن اور فضل علی کو نومبر 2016 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق وہ دونوں تحریک طالبان پاکستان کے سرگرم کارکن تھے، 'وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج پر حملے میں ملوث تھے جس کے نتیجے میں حوالدار منیر احمد اور سپاہی ساجد خان ہلاک اور دیگر متعدد اہلکار زخمی ہوگئے تھے، ان کے قبضے سے بھی آتشی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا'۔

دونوں افراد سوات کے رہائشی تھے۔

تحقیاتی کمیشن میں دائر ایک درخواست کے مطابق رحمٰن 29 اگست 2009 سے سوات کے علاقے کانجو سے لاپتہ ہوا جبکہ فضل کو 9 ستمبر 2009 کو نامعلوم افراد اغوا کرکے لے گئے تھے۔

یاد رہے کہ فوج نے مئی 2009 میں سوات کو دہشت گردوں سے خالی کرانے کیلئے 'راہ راست آپریشن' کا آغاز کیا تھا۔

یہ رپورٹ 8 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں