حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ عدالت کو چاہیئے کہ وہ پاناما لیکس کیس میں کمیشن بنانے کا فیصلہ سنادے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ہمارے وکلاء کئی بار کہہ چکے ہیں کہ دستاویزات میں وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے دستخط جعلی ہیں اور اگر کسی کو شک ہے تو وہ تصدیق کروا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا 'اگر پھر بھی ہماری بات پر یقین نہیں تو عدالت اس معاملے پر کمیشن بنادے تاکہ حقیقت سامنے آجائے'۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتوں میں کسی کی خواہشات پر فیصلے نہیں ہوسکتے۔

اس سوال پر کہ اب تک سماعتوں کے دوران آپ کی جانب سے قطری شہزادے کے خط کے سوا کچھ جمع کروایا گیا؟ لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ اس وقت مزید دستاویزات جمع کروانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ ان میں وزیراعظم کا نام ہی موجود نہیں۔

'کیس استثنیٰ کا نہیں اور نہ مانگیں گے'

وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر اور عدالت میں جمع کروائی جانے والے جوابات میں تضاد سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر اس کیس میں عدالت آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت کارروائی کرتی بھی ہے تو یہ معاملہ سپریم کورٹ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پاس جائے گا اور جہاں تک آرٹیکل 66 کی بات ہے تو یہ فیصلہ کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، لیکن نہ تو یہ کیس استثنیٰ کا ہے اور نہ ہی ہم مانگیں گے'۔

پروگرام میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما اور ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کیس میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ لندن فلیٹس شریف خاندان کی ملکیت ہیں، لہذا اب سوالیہ نشان بھی انہی پر ہے۔

شہلا رضا نے کہا کہ 'گذشتہ سماعتوں میں خود وزیراعظم کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ بارِ ثبوت وزیراعظم نواز شریف پر ہی ہے جنہیں اس جائیداد کو جائز ثابت کرنا ہوگا'۔

انھوں نے کہا کہ اس کیس میں وزیراعظم کے صادق اور امین نہ ہونے کی بات کرنا بہت ہی حیران کن ہے، کیونکہ جو بھی رکن اسمبلی یا کوئی بھی شخص عوامی عہدے کو سنبھالتا ہے تو وہ ایوان میں ہمیشہ سچ بولنے کا پابند ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کے بیان میں کوئی تضاد اور غلط بیانی موجود نہیں۔

مزید پڑھیں: پاناماکیس:’دہری شہریت اورصادق، امین کی بنیاد پرنااہلی میں فرق‘

اس سے قبل جمعہ (13 جنوری) کو ہونے والی کیس کی گذشتہ سماعت میں وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے ناہل قرار دیئے جانے سے متعلق اپنے دلائل میں کہا تھا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے اور وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کے لیے عدالتی ڈیکلیئریشن ضروری ہے، کیونکہ آرٹیکل 62، 63 کے تحت نا اہلی کے لیے کسی حوالے سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں،بی بی سی

واضح رہے کہ چار روز قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ لندن فلیٹس 90 کی دہائی سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پاناما لیکس میں سامنے آنے والی دو آف شور کمپنیوں نیلسن اور نیسکول نے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کے زیر تصرف فلیٹس 1990 کی دہائی میں خریدے تھے اور اس کے بعد سے ان کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔


یہ خبر 16 جنوری 2017 کو ڈان نیوز پر نشر ہونے والے پروگرام 'نیوز آئی' سے عادل عزیز خانزاہ نے تحریر کی

تبصرے (0) بند ہیں