اسلام آباد: قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے اراکین نے ’عربی بل 2015 ‘ کو بطور لازمی تعلیم پڑھانے پر بحث کے دوران اسے بطور مضمون نصاب میں شامل نہ کرنے کی وجہ کو دہشت گردی کا سبب قرار دیا۔

اسمبلی کی خصوصی نشست پر منتخب ہونے والی رکن اسمبلی نعیمہ کشور کی جانب سے پیش کردہ بل کو ان کی غیر موجودگی میں ہی کمیٹی میں زیر بحث لایا گیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی پروین مسعود بھٹی نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں اس لیے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ طلبہ عربی نہیں پڑھ رہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ ہم نے ساری توجہ انگریزی پر دے رکھی ہے،والدین اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو عربی کی تعلیم دلوانے کی زحمت تک نہیں کرتے، اور اسی طرز عمل کے باعث ہی دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: عربی بولنے پر طالبعلم جہاز سے بے دخل

تاہم متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم) کے رکن اسمبلی سید علی رضا عابدی نے دلیل دی کہ جو لوگ ٹھیک طرح سے عربی بولتے ہیں وہ دہشت گرد بھی ہوسکتے ہیں اور دہشت گردی کو پھیلا بھی سکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اسمبلی نفیسہ خٹک نے بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تعلیم سے عربی کو لازمی زبان کے طور پر متعارف کرایا جائے، بچوں کو قرآن شریف پڑھنے اور سمجھنے کی اجازت دی جائے، جس سے کئی افراد کو نوکریاں حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔

کمیٹی چیئرمین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عربی نوکریوں کے مواقع بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہوگیِ انہوں نے علامہ اقبال کے اس بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جو عربی پڑھیں گے وہ صرف تیل فروخت کرنے کی ہی نوکری حاصل کر پائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ جو بچے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کے فکرمند ہوتے ہیں وہ اسکول جانے سے پہلے اور بعد میں مساجد میں اس کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں‘۔

تاہم تحریک انصاف کے اسد عمر نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کی زبان اور تشریح بچوں کو سمجھائی جانی چاہئیے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’وفاقی دارالحکومت کی 85 فیصد مساجد کے منتظمین اس بات کی تبلیغ ہی نہیں کرتے کہ قرآن کیا کچھ کہتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: سی ایس ایس میں انگلش 'لازمی' ہے ہی کیوں؟

وزارت کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) کی سیکریٹری نرگس گھلو کے مطابق وزارت اس بل کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیوں کہ ایک استاد کی جانب سے عربی کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا کافی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبوں میں عربی کو بطور لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنا بچوں پر اضافی بوجھ ہوگا، جس طرح سندھ میں مقامی زبان بچوں پر سمجھنے کا بوجھ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عربی کو چھٹی جماعت سے ایک اختیاری مضمون کے طور پر تو شامل کیا جاسکتا ہے، مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر طالب علم عربی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس حوالے سے وفاق المدراس سے رائے طلب کی جائے، مگر کمیٹی چیئرمین رانا محمد حیات خان نے وزارت سی اے ڈی ڈی کو ہدایات جاری کیں کہ کمیٹی ممبران کی رائے کے مطابق بل کو حتمی شکل دی جائے۔

اجلاس میں پولی کلینک ہسپتال کی توسیع پر بحث

کمیٹی میں پولی کلینک ہسپتال کی توسیع پر بحث کرتے ہوئے اسد عمرکا کہنا تھا کہ انہوں نے سنا ہے کہ آنے والے چند سال میں منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا’ اگرچہ وہ منصوبے کی لوکیشن سے اتفاق نہیں کرتے کیوں کہ یہ ایک پارک کے لیے مختص کی گئی زمین پر تیار کیا جا رہا ہے تاہم حکومت کو جلد سے جلد اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہئیے‘۔

انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ’ انہیں دوسرے نامکمل منصوبوں کی طرح جلد سے جلد اس منصوبے کا بھی افتتاح کرنا چاہئیے‘۔

تاخیر سے اجلاس میں شرکت کرنے والے وزیر برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن طارق فضل چوہدری نے کہا کہ منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔

خیال رہے کہ پولی کلینک ہسپتال کو توسیع دینے کا منصوبہ 2008 میں شروع کیا گیا، ہسپتال کی عمارت کے ساتھ ایک اضافی عمارت ارجنٹائن پارک کے ساتھ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

منصوبہ اس وقت متنازع بنا جب وزارت صحت کو یہ احساس ہوا کہ منصوبے کی تعمیر کے لیے ارجنٹائن کے سفارت خانے سے اجازت حاصل کرنا لازمی ہے۔

ارجنٹائن کے سفارت خانے کی جانب سے پارک کی زمین پر ہسپتال کی تعمیر کی اجازت دینے کو وزارت سی اے ڈی ڈی نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف وزیر اعظم ہی قوانین میں نرمی کی اجازت دے سکتے ہیں، وزیر اعظم نے ہسپتال کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے، مگر تعمیراتی کام تاحال شروع نہیں کیا جاسکا۔

پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد کا دوسرا بڑی ہسپتال ہے، ہسپتال کے آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ ( او پی ڈی) میں یومیہ 8 ہزار مریض آتے ہیں، جب کہ ہسپتال میں صرف 550 بستروں کی سہولت میسر ہے، جو شہر کی آبادی کے حوالے سے ناکافی ہے۔


یہ خبر 16 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

محسن علي Feb 16, 2017 02:08pm
عام پاکستانی گھر میں مادری زبان میں بات کرتا ہے تو صوبوں میں کیوں نہیں