اسلام آباد: حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں 3 سال کی توسیع کی تجویز پیش کردی تاہم اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومتی تجویز کو یکسر مسترد جبکہ دیگر پارلیمانی جماعتوں نے بھی حکومتی مسودے پر تحفطات کا اظہار کیا ہے۔

اسلام آباد میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کے سامنے حکومت کی طرف سے تیار کیا گیا فوجی عدالتوں کی توسیع کے حوالے سے مجوزہ آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ پیش کیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق مجوزہ بل میں حکومت نے فوجی عدالتوں کی مدت میں تین سال کی توسیع کی تجویز دی تاہم پیپلز پارٹی نے اسے یکسر مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت ختم

اجلاس میں شریک پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر کا کہنا تھا کہ حکومت فوجی عدالتوں کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے۔ اجلاس میں شریک دیگر پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی مسودے پر تحفطات کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ حکومتی تجویز پر پارٹی قیادت سے بات کریں گے۔

بعد ازاں پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں وزیر قانون شاہد حامد کی سربراہی میں پانچ رکنی ذیلی کمیٹی قائم کردی گئی جو قانونی مسودے کو حتمی شکل دے کر 27 فروری کو پارلیمانی رہنماؤں کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ 'حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے مسودے میں دہشت گردی کے خلاف قانون کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

انہوں ںے کہا کہ مجوزہ بل میں بعض اتحادیوں کے اصرار پر مذہبی دہشت گری کا لفظ نکال دیا گیا ہے اور دہشت گردی کا دائرہ بہت وسیع کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا مستقل قیام: 'نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی'

نوید قمر نے کہا کہ 'حکومت کی تعریف کے مطابق اب کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے'۔

نوید قمر نے کہا کہ 'ابھی تو ہم نے فوجی عدالتوں کے توسیع کے معاملے کی حمایت نہیں کی، پہلے توسیع کا معاملہ حل ہو پھر دیکھیں گے کہ فوجی عدالتوں کی مدت کتنی ہونی چاہیے'۔

پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'آج قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ نے سیکیورٹی صورتحال اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد پر اعتماد میں لیا'۔

شاہ محمود نے بتایا کہ دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے قوانین میں ترامیم کی ضرورت پر بریفنگ دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ '19 قوانین ایسے ہیں جن میں ترامیم کی ضرورت ہے، کیا گارنٹی ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے بعد صورتحال بہتر ہوگی'۔

انہوں نے کہا کہ ' 21 ویں آئینی ترمیم کے بعد جو اقدامات کئے جانے تھے وہ نہیں کئے گئے، آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے لئے ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے'۔

شاہ محمود نے کہا کہ 'حکومت چاہتی ہے کل ہی اس قانون کو پاس کردیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ عجلت دیرپا حل کے لئے مناسب نہیں ہوگی'۔

قومی وطن پارٹی کے رکن اسمبلی آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے معاملے پر سیاسی قیادت سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کو دو سال کیلئے دیے جانے والے خصوصی اختیارات 7 جنوری 2017 کو ختم ہوگئے تھے۔

دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔


تبصرے (0) بند ہیں