اسلام آباد: پارلیمنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کو دو سال کیلئے دیے جانے والے خصوصی اختیارات ختم ہوگئے ہیں جس کے بعد ان عدالتوں میں جاری مقدمات کے ٹرائل متعلقہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو منتقل کردیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد 6 جنوری 2015 کو آئین میں 21 ویں ترمیم اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015 (ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد فوجی عدالتوں کو خصوصی اختیارات دیے گئے تھے جس کا مقصد ان سول افراد کا ٹرائل کرنا تھا جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے متفقہ طور پر ووٹ دیے تھے، اس کے باوجود کہ انھیں اس بات خطرہ لاحق تھا کہ یہ عدالتیں مشتبہ افراد کے خلاف ٹرائل چلانے کے ساتھ جمہوریت کو کمزور بھی کرسکتی ہیں۔

یاد رہے کہ نہ تو حکومت کی جانب سے اور نہ ہی فوج کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے آیا ہے جس میں سولینز کے خلاف ٹرائل کیلئے قائم کی جانے والی خصوصی فوجی عدالتوں کے اختیارات کے اختتام کے حوالے سے کچھ کہا گیا ہو۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کا مستقل قیام: 'نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی'

وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ مستقبل میں دہشت گردی کے مقدمات ٹرائل کیلئے انسداد دہشت گردی کی متعلقہ عدالتوں کو بھیجے جائیں گے جنھیں ایسے مقدمات کے ٹرائل کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

ایک اور ذرائع نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وزارت داخلہ نے فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں قانون میں تجدید کیلئے 'تاخیر اور غیر دلی' سے کوششیں کی تھیں تاہم ایسا نہ ہوسکا۔

واضح رہے کہ ملک میں نافذ کیا گیا ایک اور قانون 'پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ' گذشتہ سال بغیر کسی تجدید کے اپنی میعاد مکمل کرگیا تھا اور اس میں توسیع نہیں کی گئی۔

دوسری جانب سیاسی جماعتوں اور قانونی ماہرین نے حکومت کو فوجی عدالتوں کے لازمی قیام کی ضرورت کے حوالے سے قانونی اصلاحات شروع نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ '21 ویں ترمیم میں دو سال بعد ان عدالتوں کو ختم ہونے کی شق کو شامل کرنے کا ایک مقصد تھا، اس کا مقصد تھا کہ اس دوران جرائم کے مقدمات کی سماعت کرنے والے عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں گی، بدقسمتی سے حکومت نے اس حوالے سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا'۔

قانونی ماہر اور سابق وزیر قانون احمد بلال صوفی کا کہنا تھا کہ 'فوجی عدالتوں نے مشتبہ افراد کو سزائیں دینے کا جزوی مقصد تو حاصل کرلیا لیکن اس کا اصل مقصد موجودہ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں اصلاحات کرنا تھا، اس حوالے سے قانون سازی کی جانی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کے حوالے سے طویل مدتی مقصد حاصل نہیں ہوسکے۔'

یاد رہے کہ فوجی عدالتوں نے فروری 2015 سے ٹرائل کا آغاز کیا تھا، ان کی جانب سے پہلے مجرم کو اسی سال اپریل میں جبکہ آخری مجرم 28 دسمبر 2016 کو سزا سنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی توسیع کا معاملہ: دہشتگردی کے مقدمات پر اثرانداز

ان فوجی عدالتوں کو دو سال کی مدت کے دوران 275 مقدمات ٹرائل کیلئے بھجوائے گئے تھے جن میں 161 'دہشت گردوں' کو سزائے موت دی گئی جبکہ دیگر 116 ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا جن میں سے بیشتر کو عمر قید کی سزادی گئی تھی۔

اس دوران 12 مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی کرایا گیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ ابتدا میں فوجی عدالتوں کے قیام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا تھا کہ آئین میں کی جانے والی 21ویں ترمیم موجودہ عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے جو انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔

مذکورہ پٹیشن سپریم کورٹ کی جانب سے خارج کردی گئی تھی۔

اسی طرح فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 27 مجرموں نے مذکورہ سزاؤں کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ان کا شفاف ٹرائل نہیں کیا گیا، جیسا کہ انھیں نہ تو فیصلے کی کاپیاں دی گئی اور نہ ہی انھیں حق دیا گیا کہ وہ اپنے لیے کسی وکیل کو مقرر کرسکیں۔

جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سائرہ بلال کا کہنا تھا کہ 'فوجی عدالتوں کے اعداد وشمار خود بولتے ہیں — سزائیں دینے کی شرح 90 فیصد — اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں شفافیت کا فقدان تھا'۔

فوجی عدالتوں کی جانب سے ٹرائل کے دوران جن افراد کو سزائے موت اور عمر قید دی گئی ان کا تعلق القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الحرار، توحید جہاد گروپ، جیش محمد، حرکۃ الجہاد اسلامی، لشکر جھنگوی، لشکر جھنگوی العالمی، لشکراسلام اور سپاہ صحابہ سے تھا۔

فوجی عدالتوں نے جن اہم اور معروف مقدمات کا ٹرائل کیا ان میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والا حملہ، صفورہ بس حملہ، سماجی کارکن سبین محمود کا قتل، معروف صحافی رضا خان رومی پر حملہ، بنوں کی جیل پر ہونے والا حملہ، راولپنڈی کی پریڈ لین مسجد میں ہونے والا بم دھماکا، ناگا پربت بیس کیمپ پر غیر ملکیوں کا قتل، مستونگ میں اہل تشیع کمیونٹی پر ہونے والا حملہ، اورکرزئی ایجنسی میں فوجی ہیلی کاپٹر پر حملہ، پشاور میں پی آئی اے کے طیارے پر ہونے والا حملہ، میریٹ ہوٹل دھماکا، کراچی ایئر پورٹ حملہ، فرقہ وارانہ دہشت گردی، قانونی نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر ہونے والے حملے، پولیو کی ٹیموں اور تعلیمی اداروں پر ہونے والے حملے شامل ہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما فرید پراچہ نے اطمینان کا اظہار کیا کہ فوجی عدالتیں اپنے اختتام کو پہنچی، یاد رہے کہ ان کی جماعت نے 21 ویں آئینی ترمیم کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ اچھی پیش رفت ہے'۔

یہ رپورٹ 7 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں