واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2001 سے لے کر اب تک افغانستان میں 2 ہزار 248 امریکی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ گذشتہ 14 سال کے دوران ایران میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد 4 ہزار 520 کے برابر ہے۔

پینٹاگون کے جاری کردہ مذکورہ اعداد و شمار ٹرمپ انتطامیہ کی تشویش میں اضافے کی ایک اور وجہ ثابت ہوسکتے ہیں جو پہلے ہی جنگوں میں امریکی نقصان کو کم کرنے اور پاک-افغان خطے کی پالیسی پر نظرثانی میں مصروف ہے۔

امریکی انتظامیہ چونکہ فوجی حل کی حدود سے واقف ہے اسی لیے امریکا کے نئے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن واضح کرچکے ہیں کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت ان کا بنیادی مقصد ہے۔

اس صورتحال کو واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین پاکستان کے لیے ایک 'اچھے موقع' کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل تیز کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

واشنگٹن میں اپنی پہلی عوامی ملاقات میں امریکا میں پاکستان کے نئے سفیر اعزاز چوہدری نے اس کردار کا حوالہ دیا اور افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے 5 نکاتی فارمولا بھی پیش کیا۔

امریکی ادارہ برائے امن میں گفتگو کے دوران پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک طرف جہاں ٹرمپ انتظامیہ پاک-افغان خطے کی پالیسی پر نظرثانی میں مصروف ہے، وہیں پاکستان کو مثبت اشارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

ان کے پیش کردہ فارمولے میں شامل پاچ نکات میں غیر فوجی حل، پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات، بہتر بارڈر مینجمنٹ کا نظام، افغان مہاجرین کی واپسی اور مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانا شامل ہے۔

ان نکات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ معاملہ صرف مذاکرات سے حل کیا جاسکتا ہے، جنگ اس کا حل نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل کا الزام پاکستان پر لگانا بند کرے۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ کابل یہ الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان، طالبان کو افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے جبکہ پاکستان کی شکایات بھی کچھ ایسی ہی ہیں، سرحد پر منظم انتظام ان الزامات اور جوابی الزامات کے سلسلے کو ختم کرسکتا ہے۔

پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے کوشاں چار فریقی گروپ کے ذریعے ان مقاصد کو حاصل نہیں کیا جاسکا، تاہم مفاہمتی عمل کو جاری رہنا چاہیئے۔


یہ خبر 3 اپریل 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں