اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کے حکم کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے بیورو میں اعلیٰ افسران کی متنازع تعیناتیاں کردیں۔

ڈان کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق نیب کے انلینڈ ریوینو سروس میں گریڈ 20 کے افسر ناصر اقبال کو نیب راولپنڈی ریجن کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نیب کے اعلیٰ افسران کو ہٹائے جانے کے حکم کے بعد بیورو نے ناصر اقبال کو تعینات کیا۔

ناصر اقبال کی تعیناتی کے حوالے سے نیب کے قوانین میں ہونے والی خلاف ورزیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ انھیں 8 مارچ کو انلینڈ ریونیو سروس میں شامل کیا گیا تھا جہاں وہ گریڈ 20 کے افسر تھے لیکن انھیں ایک ہفتے میں ہی (13 مارچ کو) گریڈ 21 پر ترقی دی گئی اور ڈائریکٹر جنرل (چیئرمین سیکریٹریٹ) بنا دیا گیا۔

ایک جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ناصر اقبال کو ڈائریکٹر جنرل (راولپنڈی) تعینات کردیا گیا ہے، یہ عہدہ نیب رینجن کا سب سے اہم عہدہ ہے جہاں اس کے ہیڈکوارٹر کی جانب سے بیشتر میگا کرپشن اسکینڈلز تحقیقات کیلئے بھیجے جاتے ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق نیب کے دیگر اعلیٰ افسران کو مختلف مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے جن میں ڈی جی سکھر رینجن محمد الطاف باوانے کو ڈی جی کراچی رینجن، ڈی جی راولپنڈی عطاء الرحمٰن کو ڈی جی ملتان، ڈائریکٹر نیب ہیڈ کوارٹرز عرفان نعیم منگی کو ڈی جی بلوچستان رینجن، ڈائریکٹر سکھر فیاض احمد قریشی کو ڈی جی سکھر کے طور پر تعینات کردیا گیا ہے جبکہ ایڈیشنل ڈائریکٹر (آپریشن ڈویژن) عاصم لودھی کو ڈائریکٹر (چیئرمین سیکریٹریٹ) کے طور پر تعینات کیا گیا۔

واضح رہے کہ محمد الطاف باوانے کی تعیناتی کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کی منتقلی مطلوبہ تجربے کے مطابق نہیں ہے جیسا کہ انھیں 2013 میں نیب میں شامل کیا گیا تھا۔

نیب کے قوانین کے مطابق محکمے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہونے کیلئے یہ ضروری ہے کہ مذکورہ افسر کا جعل سازی کی تحقیقات، قانونی معاملات اور دیگر انکوئریز کے حوالے سے 22 سال کا تجربہ ہو۔

اس حوالے سے نیب کے ترجمان نواز علی عاصم کا مؤقف جاننے کیلئے متعدد بار ان سے رابطے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا مؤقف حاصل نہ ہوسکا۔

سپریم کورٹ کے 31 مارچ کے فیصلے کے مطابق نیب کے کچھ اعلیٰ افسران کو مطلوبہ تجربہ حاصل نہ ہونے کی وجہ سے گھر بھیج دیا جانا چاہیے تھا۔

اس کے علاوہ ناصر اقبال کی تعیناتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں ہے کیونکہ وہ انلینڈ ریونیو سروس کے افسر رہے ہیں جو تین مختلف قسم کے محصولات کے معاملات کو دیکھتی ہے جن میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی شامل ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیب کے ایک افسر نے ڈان کو بتایا کہ سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 10 کے تحت کسی بھی سرکاری ملازم کو ایک گریڈ کا اضافہ اس صورت میں دیا جاتا ہے جب وہ ایک سرکاری محکمے سے دوسرے سرکاری محکمے میں تعینات کیا جائے۔

تاہم اس قسم کے قوانین نیب پر لاگو نہیں ہوتے کیونکہ نیب امپلائز ٹرمز اینڈ کنڈیشنز آف سروسز (ٹی سی ایس) 2002 کے مطابق 'ایک شخص جو وفاقی حکومت سے منسلک ہو، جس میں افواج پاکستان بھی شامل ہیں یا صوبائی حکومت یا وہ جو نیب میں تعینات ہو، اسے نیب میں مستقل تعینات رکھا جاسکتا ہے، ایسے عہدے پر جو برابر ہو یا اس کی جانب سے اختیار کیے گئے عہدے کے مطابق ہو اور یہ عہدہ حکومت، کسی کارپوریشن یا ادارے کے تحت ہو'۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ کچھ دیگر نیب افسران مطلوبہ تجربے کے بغیر مختلف عہدوں پر موجود ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم کی تکمیل کیلئے چیئرمین نیب کی جانب سے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔

یہ رپورٹ 5 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں