اردگان ریفرنڈم میں کامیاب، مخالفین کااحتجاج

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2017
اردگان کے حق میں 51.4 فی صد ووٹ ڈالے گئے—فوٹو:رائٹرز
اردگان کے حق میں 51.4 فی صد ووٹ ڈالے گئے—فوٹو:رائٹرز

ترک صدر طیب اردگان نے اختیارات کی منتقلی کے لیے ہونے والا ریفرنڈم جیت لیا، لیکن معمولی فرق سے آنے والے نتائج نے ملک کو بری طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے، جبکہ حزب مخالف کی جانب سے دھاندلی کا الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

ریفرنڈم کے نتائج کے ساتھ ہی آئینی تبدیلی کو منظوری مل گئی اور جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اور عصمت انونو کے بعد کسی ترک حکمران کو اس قدر وسیع اختیارات حاصل ہوگئے۔

1952 میں نیٹو میں شامل ہونے والے اور گزشتہ نصف صدی سے یورپین یونین میں شمولیت کی کوشش کرنے والے ملک ترکی پر ان نتائج کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

اردگان کے حامی جھنڈے اٹھائے جشن مناتے رہے—فوٹو:رائٹرز
اردگان کے حامی جھنڈے اٹھائے جشن مناتے رہے—فوٹو:رائٹرز

ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے اناطولو کے مطابق 99.5 فی صد بیلٹ بکس کی گنتی کے نتائج کے مطابق تاریخی ریفرنڈم کے دوران 'ہاں' میں 51.4 فی صد جبکہ 'نہیں' میں 48.6 فی صد ووٹ ڈالے گئے جبکہ ٹرن آؤٹ 85 فی صد رہا۔

سپریم الیکشن بورڈ کے سربراہ سعدی گووین نے ریفرنڈم کی کامیابی کی تصدیق کی لیکن مخالفین نے نتائج کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی: حکومت کو مضبوط بنانے کی آئینی ترامیم منظور

جیت کا جشن منانے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں جھنڈے تھامے سڑکوں پر نکل آئی جبکہ صدر اردگان نے تعریف کرتے ہوئے اس کو 'تاریخی فیصلہ' قرار دیا۔

اردگان کا کہنا تھا کہ 'عوام کے ساتھ مل کر ہم نے اپنی تاریخ میں اہم اصلاحات لانے کا فیصلہ کیا'۔

دوسری جانب استنبول کے اردگان مخالف علاقے میں مظاہرین نے برتن اور کچن کی اشیا اٹھائے ہوئے منفرد انداز میں اپنی ناخوشی کا اظہار کیا جبکہ بیسکتاس اور کیدوکوئے میں بھی سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔

نئے باب کا اضافہ

ترکی میں ریفرنڈم کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک میں گزشتہ سال جولائی میں اردگان کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجنسی نافذ ہے اور کریک ڈاؤن کے دوران 47 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ابتداء میں صدارتی نظام کے حق میں کم ووٹ پڑے تھے تاہم ایک دم سے اس کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن یہ 'ہاں' مہم پر برتری حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔

وزیراعظم بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جسے عوام نے سنایا ہے اور اس سے ہماری جمہوری تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے'۔

خیال رہے کہ اس ریفرنڈم کے بعد وزیراعظم کا عہدہ آئینی تبدیلیوں کے نتیجے میں ختم ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں:ترکی: طیب اردگان کے نئے اختیارات پر بحث

اردگان نے ریفرنڈم سے دوروز قبل پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ 55 سے 60 فی صد ووٹ کے واضح فرق سے کامیابی ملے گی۔

لیکن ووٹنگ کے عمل نے واضح کردیا کہ اختیارات کی تبدیلی کےمعاملے میں ترکی بری طرح تقسیم ہے جبکہ ملک کے تین بڑے شہروں میں 'نہیں' مہم کو کامیابی ملی۔

یہ بھی پڑھیں: ترک حکومت کا تاریخی ریفرنڈم میں کامیابی کا دعویٰ

اردگان کو ریفرنڈم میں کامیابی کے لیے بھاری ووٹ ملے لیکن ایجین اور بحیرہ روم کے ساحلی اور کردوں کے اکثریت والے علاقوں میں ریفرنڈم کے خلاف ووٹ دیا گیا۔

ترک صدر کے لیے مایوس کن لمحہ یہ ہے کہ ان کے آبائی شہر استنبول اور دارالحکومت انقرہ جبکہ تیسرے شہر ازمیر میں مخالف مہم کو معمولی فرق سے برتری حاصل رہی۔

یورپین کمیشن کے سربراہ جین کلاؤڈ جنکر اور یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ فیدریکا موگرینی نے ایک بیان میں کہا کہ ترک حکام کو نتائج کے معمولی فرق کے پیش نظر آئینی تبدیلی کے لیے 'بڑے پیمانے پر قومی اتفاق رائے' ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں