حکومت پاکستان کی جانب سے فیس بک استعمال کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات کے حصول کے لیے درخواستوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

اس بات کا انکشاف فیس بک کی ششماہی ٹرانسپیرنسی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

جولائی 2016 سے دسمبر 2016 کے دوران پاکستان کی جانب سے فیس بک سے ڈیٹا کے حصول کے لیے 998 درخواستیں کی گئیں جبکہ جنوری 2016 سے جون 2016 کے دوران یہ تعداد 719 تھی۔

فیس بک کے مطابق پاکستانی حکومت نے 1428 صارفین یا اکاﺅنٹس کے بارے میں ڈیٹا طلب جبکہ جنوری سے جون 2016 کے دوران یہ تعداد 1015 تھی۔

998 درخواستوں میں سے فیس بک نے 67.74 فیصد پر تعاون کرتے ہوئے حکومت کو ڈیٹا یا معلومات فراہم کیں۔

اس سے ہٹ کر بھی پاکستان کی جانب سے فیس بک سے کسی جرم کی تحقیقات کے لیے 442 درخواستوں کے ذریعے 677 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ کرنے کی درخواست بھی کی گئی جبکہ جنوری سے جون کے دوران 280 درخواستوں کے ذریعے 363 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا یا ریکارڈ محفوظ رکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔

اس بار رپورٹ میں ایمرجنسی کے نام سے ایک نئی کیٹیگری کا اضافہ بھی کیا گیا جس کے تحت چار درخواستوں کے ذریعے تین اکاﺅنٹس کی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جن میں سے پچیس فیصد پر فیس بک نے معلومات فراہم کی۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کی قانونی درخواستوں کی بناءچھ پیجز پر ایسے مواد کو بلاک کیا گیا جو کہ پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی، توہین مذہب، قومی پرچم کی توہین یا ملکی خودمختاری کی مذمت پر مبنی تھا، جنوری سے جون کے دوران یہ تعداد 25 تھی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جولائی سے دسمبر 2015 کے دوران 471، جنوری سے جولائی 2015 میں 192 درخواستوں کے ذریعے 275 اکاﺅنٹس جبکہ جولائی 2014 سے دسمبر 2014 کے درمیان 100 درخواستوں کے ذریعے 150 صارفین یا اکاﺅنٹس کا ڈیٹا طلب کیا گیا تھا۔

فیس بک کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صارفین سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے حکومتی درخواستوں میں 9 فیصد اضافہ ہوا اور امریکا سب سے اوپر رہا۔

مجموعی طور پر دنیا بھر میں64 ہزار 279 درخواستیں کی گئیں جبکہ یہ تعداد گزشتہ ششماہی میں 59 ہزار 229 تھیں۔

فیس بک کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ وہ کسی بھی حکومت کو ' بیک ڈور ' یا صارف کے ڈیٹا تک براہ راست رسائی نہیں دیتا اور ہر درخواست کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کا جواب دینا چاہئے یا نہیں۔

اس سے قبل گزشتہ سال فیس بک نے اپنی رپورٹ کے حوالے سے کہا تھا کہ حکومتی درخواستوں پر جواب اسی صورت میں دیا جاتا ہے جب وہ کسی فوجداری مقدمے سے متعلق ہو۔

انسٹاگرام اور واٹس ایپ بھی فیس بک کی ہی ملکیت ہیں مگر ان پر موجود صارفین سے متعلق درخواستوں کے اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں