مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کو تقریباً 40 روز بعد کھول دیا گیا جسے گستاخی کے الزام میں مشتعل طالب علموں کے تشدد سے مشعال خان کی ہلاکت کے بعد انتظامیہ نے بند کردیا تھا۔

پیر کے روز عبدالولی خان یونیورسٹی کو طالب علموں کے لیے دوبارہ کھولا گیا جبکہ یونیورسٹی کھولنے سے قبل پولیس نے کیمپس میں قائم ہاسٹل کا سرچ آپریشن بھی کیا جس کے دوران متعدد اسلحہ اور چاقو برآمد ہوئے۔

سرچ آپریشن کے دوران کیمپس کے اندر سے منشیات بھی برآمد ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال کے اہلخانہ کا ساتھ نہ دینے پر پڑوسیوں کی معافی
سرچ آپریشن کے دوران اسلحہ، چاقو اور منشیات بھی برآمد ہوئی— فوٹو / ڈان نیوز
سرچ آپریشن کے دوران اسلحہ، چاقو اور منشیات بھی برآمد ہوئی— فوٹو / ڈان نیوز

یاد رہے کہ 15 اپریل کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں گستاخی کا الزام عائد کرکے طالب علم مشعال خان پر اس کے ساتھی طالب علموں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا تھا۔

گزشتہ روز مشعال خان کے آبائی علاقے صوابی میں ان کا چالیسواں منایا گیا جس میں سول سوسائٹی کے ارکان، سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔

23 سالہ مشعال خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ تعلقات عامہ کا طالب علم تھا جس پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر گستاخانہ مواد ڈالتا ہے۔

مزید پڑھیں: مشعال خان کے قتل سے متعلق مزید ویڈیو سامنے آگئی

اس الزام پر یونیورسٹی کے دیگر طالب علموں نے پہلے تشدد اور پھر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا تھا۔

اس کیس میں مردان پولیس اب تک 53 افراد کو حراست میں لے چکی ہے جس میں مرکزی ملزم عمران بھی شامل ہے جس نے ممکنہ طور پر مشعال خان پر فائرنگ کی تھی۔

تاہم پولیس پاکستان تحریک انصاف کے کونسلر عارف خان کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے کیوں کہ واقعے کے بعد سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ہجوم کو خبردار کررہے ہیں کہ کوئی بھی مشعال خان کے قاتل کا نام نہیں بتائے گا۔


تبصرے (0) بند ہیں