'تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو نوکری بھی نہیں ملے گی اور نوکری نہیں ملے گی تو گهر کی کفالت کیسے کروگے؟' یہ ایک ایسا مفروضہ یا نصیحت ہے جو برسا برس نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔

یہ حکم تو مردوں پر صادر تها، عورتوں اور لڑکیوں کے لیے یہ جملہ آج بهی عام و خاص کی زبان پر ہے کہ 'لڑکیوں کو پڑھ کر کیا کرنا ہے، آخر میں تو ان کی شادی ہی ہوگی۔'

ہمارے معاشرے میں لفظ 'تعلیم' بڑا اختلافی لفظ ہے۔ اس کی تعریف ہے کیا؟ آیا یہ کتابوں کے رٹنے کا نام ہے؟ یا ڈگریوں کو جمع کرنے کا یا کتابوں اور تجربات پر اپنی زندگی کهپانے کا؟ یہ کمانے کی کنجی بهی سمجهی جاتی ہے اور تخلیقِ کردار کا ذریعہ بهی۔

سوال یہ ہے کہ تعلیم کیا ہے؟ کیا یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے؟ ڈگری کا مل جانا؟ یا پهر تعلیم ان تمام مادی تقاضوں سے پاک ہے؟ یہ تعلیم نامی بیماری ہے کیا؟

مارک ٹوین (Mark Twain) نے کہا تها کہ "میں نے کبهی اپنی تعلیم کو اپنی اسکولنگ (Schooling ) سے خلط ملط نہیں کیا" . اس بات کو پڑهنے پر یہ گمان آنا واجب ہے کہ تعلیم کسی ادارے، سکول، کالج یا یونیورسٹی کی محتاج نہیں، البتہ یہ تمام تو صرف ذرائع گردانے جا سکتے ہیں۔

اگر تعلیم اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا نام نہیں تو کیا ہے؟ چلیں اس بات کو اس دانشور کی ذاتی رائے تسلیم کر بهی لیں تب بهی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم ان اداروں کی محتاج کُلی طور پر نہیں ہوسکتی، کیوں؟ کیونکہ اس کا ثبوت خود اس دانشور کی ذات ہے جو ایک ادبی دانشور کی حیثیت سے دنیا بهر میں شہرت رکھتا ہے لیکن اس نے کبهی کوئی فارمل تعلیم حاصل نہیں کی۔

ادب کا کبهی یہ باقاعدہ طالب علم نہیں رہا، ادب میں ماسٹرز نہیں تها بلکہ فلاڈیلفیا کی ایک دکان میں پڑنٹر آپریٹر تها، وہی مارک ٹوین جو آج امریکا کا سب سے زیادہ پسند کیے جانے والا مصنف ہے، جس کا ناول (Adventures of Huckleberry Finn) امریکی ادب کا شاہکار سمجها جاتا ہے۔

اسی طرح نصابی تعلیم یا وہ تعلیم جو اسکول اور کالجوں میں پڑهائی جاتی ہے وہ کامیاب انسان بنانے کا ذریعہ سمجهی جاتی ہے۔ بالکل یہ بات ٹهیک ہے مگر ذرا غور کریں کہ کیا واقعی ایسا ہے بھی یا نہیں؟ عالمی نصابی تعلیم کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم صرف پاکستان کا تعلیمی معیار دیکهیں تو ہمیں "تعلیم اور کامیاب" والی تهیوری بری طرح فیل ہوتی نظر آئے گی۔

پڑھیے: تعلیم یافتہ پاکستان: جہاں مالی اور چوکیدار بھی ماسٹرز

ملک میں 3 کروڑ 74 لاکھ 62 ہزار 9 سو طالب علم نصابی تعلیم سے منسلک ہیں۔ ان کا تعلق سائنس، آرٹس، کامرس اور میڈیکل سے ہے۔ یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد بهی کوئی خاصی کم نہیں بلکہ 4 لاکھ 45 ہزار ہے، یہ تعداد ملک میں رائج نصابی تعلیم کے ذریعے ہی کامیاب بننا، امیر بننا اور سب کچھ بننا چاہتے ہیں مگر جب لاکهوں، کروڑوں لوگوں کا اس نصابی تعلیم سے منسلک رہنے کے باوجود معاشرے میں جمود کی کیفیت، عدم برداشت، دہشتگردی، غربت اور بے روزگاری نہ صرف موجود ہے، بلکہ بہت پختگی کے ساتھ اپنی جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے۔

68 فیصد شرح خواندگی کے حامل ملک پاکستان میں 5 اعشاریہ 30 لاکھ لوگ بے روزگاری کے دلدل میں پهنسے ہیں۔ چلیے! یہ بهی مان لیتے ہیں کہ تعلیمی نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو، لیکن ان پیپر (In-Paper) میگزین تو اس کی تردید اس بات سے کرتا ہے کہ 49 فیصد لوگ انگریزی بولتے ہیں اور لکهتے ہیں اور پاکستان سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے ملکوں میں سے ایک ہے، پهر ماجرہ کیا ہے؟

پاکستان میں سب سے بڑے سرمایوں اسٹیل اور بینکنگ کے بعد ہسپتال اور تعلیمی صنعت ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے کروڑوں لوگ منسلک ہیں۔ انسان میں کچھ صلاحیتیں قدرتی اور جبلی ہوتی ہیں۔ کچھ اچهے پینٹر، اچهے تکنیکی صلاحیتوں کے مالک اور کچھ اپنا ہنر اپنی بلوغت میں دریافت کرتے ہیں کہ وہ اسپورٹس میں اچهے ہیں یا سائنسی فنون میں یا پهر تخلیقی ہنر میں۔

اسکولوں کا آغاز دراصل انہی جبلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فرد کو معاشرے کے سُدهار اور ارتقا کے عمل میں شامل کروانے کے لیے ہوا تها۔ لیکن یہ مقصد رفتہ رفتہ معدوم ہو گیا اب یہ باقاعدہ ایک صنعت کا روپ دهار چکے ہیں۔

اب اس کا مقصد صرف فرد کو معاشرے کے سدهار یا ارتقائی عمل میں اپنا کردار ڈالنے کے بجائے ریاست کو سستے مزدور مہیا کروانا ہے۔ اس تعلیمی صنعت نے معاشرے کو گریڈز اور نمبروں (Marks) کا اکهاڑہ بنا دیا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کا قاتل بهی ہے اور جمود کا سبب بهی ہے.

یہ 3 کروڑ 74 لاکھ 62 ہزار 9 سو طالب علم اربوں روپے کے منافع کا ذریعہ ہے، اس پرافٹ گیم نے معاشرے کا توازن ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں محض اپلائیڈ سائنس کے علاوہ کسی دوسرے شعبے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

مزید پڑھیے: یونیورسٹی رینکنگ: والدین کو کیا دیکھنا چاہیے؟

ریاست نے تعلیم کو انفرادی کوشش اور محنت کا لیبل دے دیا ہے کہ ہر شخص پڑهے اور انجینئر، ڈاکٹر، اکاونٹنٹ بننے کے لیے انجینئرنگ، میڈیکل اور کچھ نہ ہو تو کامرس ضرور پڑهے۔ اس رجحان کی اگر کوئی پیروی کر رہا ہو تو اسے بالکل حیرت نہیں ہوگی کہ ریاست کس طرح ان تعلیمی اداروں کے درمیان مارکس اور گریڈ کی دوڑ میں اچهے اور ہائی گریڈ انجینئر اور اکاونٹنٹ وغیرہ دریافت کرتے ہیں جن کا آخری مقصد اچهے نمبروں سے اچهی نوکری ہوتا ہے۔

مگر کیا 1 لاکھ 70 ہزار 9 سو 99 سالانہ انجینئرز کے لیے فیکٹریاں، فرمز اور کمپنیاں موجود ہیں؟ اتنی بڑی کامیاب انجینئرز کی کهیپ اور پهر میڈیکل اور کامرس کے گریجوئٹس کی اتنی بڑی منڈی ہونے کے باوجود 53 لاکھ لوگوں کا بے روزگار ہونا یا تو ریاست کی واضح ناکامی ہے یا پهر ماجرہ انفرادی کامیابی کے نام پر مزدوروں کا ایک سستا جهرمٹ پیدا کرنا ہے جن کا واحد مقصد ریاست کو کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ منافع دے سکیں۔

کئی انجینئرز، کامرس گریجوئٹس اور آرٹس گریجوئٹس آپ کو ٹهیلے لگاتے، پان کی کیبن لگائے، کپڑوں کی دکان میں تهان کے تهان انڈیلتے اور ہوٹلوں میں بیرے ملیں گے۔ آرٹس کے بارے میں تو ایک جملہ تو کافی عام ہے کہ بھئی، "آرٹس پڑھ کر کیا بهوکا مرنا ہے۔" یہ رویہ معاشرے کا اجتماعی رویہ بن چکا ہے۔

ملک میں اگر انفراسٹرکچر کے کسی بڑے منصوبے کا اعلان ہو تو سول انجینئرنگ کا رجحان شروع ہو جاتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے بعد سول انجینئرنگ میں داخل شدہ طلبہ کی تعداد 12 لاکھ ہو چکی ہے، جو محض 4 سال کا دورانیہ ہے۔ ان میں کئی اچهے پینٹر، شاعر اور سائنسی دلچسپی رکهنے والے لڑکے ہیں جو فکرِ معاش کے سبب اپنے رستے سے ہٹ کر رجحان کا حصہ بن رہے ہیں کہ شاید یوں ان کا مستقبل بهی سنور جائے.

رجحان سازی (ٹرینڈ سیٹنگ) ایک ایسا ہتهیار ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کو اس دلدل میں دهکیلا جاتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قتل کر کے ریاست کی "ڈمانڈ" پر پورا اتر سکیں۔

کیا وجہ ہے کہ ملک میں 2010 تک محض دس ہزار کمپیوٹر گریجوئٹس تهے؟ کیونکہ ریاست کی ڈیمانڈ نہیں تهی۔ اب صورتحال مختلف ہے، اب ٹرینڈ IT اور کمپیوٹر سائنس کے علاوہ سول انجینئرنگ، ڈینٹل انڈسٹری اور فارمیسی کا ہے جن کے داخل شدہ طلبہ کی تعداد کسی بهی دوسرے شعبے کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔

اس تصویر کو ذرا اب ملک کی اجتماعی حالت سے جوڑیں۔ پاکستان کس کھیل میں سب سے آگے ہے؟ یا پهر تھیوریٹیکل سائنس کی کون سی دریافت کا سہرا پاکستان کے سر ہے؟

چلیے، سیاسی میدان میں کون ایسا قابل شخص آپ کی نظر میں ہے جو سیاسیات پڑھ کر آیا ہو؟ یا کوئی اچها ماہرِ معاشیات، عمرانیات یا نفسیات؟ پاکستان کی کوئی بڑی پیٹرولیم فرم ہے؟ ان سب کو چهوڑیے، پاکستان کے لوگوں میں ادبی دلچسپی کتنی باقی رہ گئی ہے؟

جانیے: پاکستانی یونیورسٹیز میں ریسرچ کی حالت زار

ان شماریات کو اگر زیرِ بحث لائیں تو بات کہاں سے کہاں نکل جائے۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ نصابی تعلیم کی ایک سیدهی لکیر سے ہٹ کر تعمیری کردار پاکستان میں ناپید ہوچکے ہیں۔ یہاں تخلیقی صلاحیتیں فکرِ معاش کے اندهیروں میں گم ہو چکی ہے، فنونِ لطیفہ اور ادب کچھ عرصے میں اب صرف کتابوں میں ہی ملے گا۔

ریاست پاکستان چند بڑے سرمایہ داروں، تعلیم فروشوں اور عالمی اشاروں کی محتاج بن چکی ہے۔ دہشت گردی، بڑهتی ہوئی شدت پسندی، عدم برداشت، تکفیریت اور کند ذہنی، سب کی وجہ بھی یہی ہے۔

یہ سلسلہ تب تک یوں ہی جاری رہے گی جب تک ہمارے سرپرست اس کهیل کو سمجھ نہیں جاتے اور بچوں کو ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے کے لیے کار آمد نہیں بناتے۔

ریاست کب سیاسیات، ریاضیات، فلکیات، کیمیا، حیاتیات، ادب، مصوری، موسیقی، اسپورٹس اور تاریخ پڑهنے والوں کے لیے بهی ایسے ہی رجحان سازی کرے گی، جس سے طالب علم اپنے شوق کا قتل کرنے کے بجائے اپنی جبلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرے میں توازن پیدا کر سکیں۔ کب یہ سرمائے کی بهوک کو نظر انداز کر کے حقیقتاً افراد کو کامیاب بنانے کے لیے تعلیم دیں گے۔

تبصرے (6) بند ہیں

Muhammad Ibrahim May 30, 2017 05:07pm
Bilkul Thik likha.I am an IT professional but have least intrest in my field.Main aik acha writer and painter ban sakta tha.
Absar May 30, 2017 11:14pm
Keep it up... u mention the right points ..
وقاص عالم انگاریہ May 31, 2017 03:27am
@Muhammad Ibrahim بالکل یہ نظام انسان کو سستا مزدور بنا سکتا ہے قابل نہیں.
Safi May 31, 2017 12:09pm
So true. I am a mechanical engineer and doing job but my mind is not accepting all these mechanical topics. Society made me to choose this field and my life got ruined for making money and money. Otherwise and still I have interest in History, Astronomy, Archaeology and in Literature and this is my dream to read all these but alas I will not get my dream.
وقاص عالم انگاریہ May 31, 2017 03:17pm
@Safi وقت دینا دن میں .. صرف ایک گهنٹا ہی سہی .. مگر لازمی
محمد امین May 31, 2017 09:34pm
اچھی تٗحریر ہے