'اسکول میں بچوں کو سزا جنگی جرم کے برابر ہے'

اپ ڈیٹ 27 مئ 2017
11 سالہ ایوا بیل کا جواب انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکا ہے—فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر/میسن کراس
11 سالہ ایوا بیل کا جواب انٹرنیٹ پر وائرل ہوچکا ہے—فوٹو بشکریہ: ٹوئٹر/میسن کراس

کہا جاتا ہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں اور یہ بات کچھ غلط بھی نہیں، بچے جو دیکھتے ہیں وہی کہنے کے عادی ہوتی ہے اور اپنے خیالات کے اظہار میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے مصنف گیون بیل (جن کا قلمی نام میسن کراس ہے) کی بیٹی کو ہی دیکھ لیجیے جس کا کہنا ہے کہ اس کا اسکول جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

گیون بیل کا تعلق برطانیہ کے علاقے گلاسگو سے ہے جبکہ ان کی بیٹی ایوا بیل جس کی عمر صرف 11 سال ہے، کا انٹرنیٹ پر کیا گیا اظہار خیال وائرل ہوچکا ہے۔

اسکول سروے کے فارم میں جب میسن کی بیٹی سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ان کی استاد طالب علموں کے لیے مزید کیا بہتر کرسکتی ہیں، تو اس نے ٹیچر کی سزا کے طریقہ کار اعتراض کرتے ہوئے کہنا تھا کہ'بچوں کو اجتماعی سزا دینا درست نہیں، کیونکہ بہت سے ایسے بچے جنہوں نے کچھ نہیں کیا ہوتا، انہیں بھی یہ سزا بھگتنی پڑتی ہے، 1949 کے جینیوا کنونشن کے تحت ایسا کرنا جنگی جرم کے برابر ہے'۔

برطانوی مصنف کو جب اپنی بیٹی کی اس حاضر جوابی کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس کی تصویر ٹوئٹر پر شیئر کی اور ساتھ صارفین سے سوال کیا 'میں اس جواب پر اپنی بیٹی کو سزا دوں یا آئس کریم خرید کردوں؟'۔

گیون بیل کی یہ ٹوئیٹ دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی اور اسے ہزاروں دفعہ لائک اور ری ٹوئیٹ کیا جاچکا ہے۔

بچی کے والد کا اپنی اگلی ٹوئیٹ میں کہنا تھا کہ ان کی بیٹی اپنی ٹیچر کو پسند کرتی ہے اور اسے صرف تعلیمی اداروں میں سزا کے طریقہ کار پر اعتراض ہے۔

بعد ازاں انہوں نے ایوا بیل کی ایک تصویر بھی ٹوئیٹ کی جس میں اسے دو آئس کریم کونز ہاتھ میں پکڑے دیکھا جاسکتا تھا ساتھ اس کے والد کا کہنا تھا کہ 'لوگ بتا چکے ہیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے'۔

تبصرے (0) بند ہیں