مجھے عامر ذکی سے اپنی پہلی ملاقات پوری طرح تو یاد نہیں، مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ وہ ہمارے اسکول آئے تھے۔ اس وقت میں بہت، بہت چھوٹا تھا۔

انہوں نے ایک اکوسٹک گٹار پر 'میرا پیار' گایا تھا، اور میں فوراً جان گیا تھا کہ مجھے کیا چاہیے۔ مجھے گٹار چاہیے تھا۔ میں ان کی طرح گٹار بجانا چاہتا تھا۔ میں بھی کتنا انجان تھا۔

کئی سال بعد، 10-2009 میں میں کالج میں 'اسپون فل' نامی ایک بلیوز راک بینڈ کا حصہ تھا۔ کسی نے ہمیں بتایا کہ ذکی اپنے ساتھ گٹار بجانے کے لیے کچھ لوگوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ دوبارہ پرفارم کرنا شروع کرنا چاہتے تھے۔ اس دوست نے انہیں میرے بینڈ کے بارے میں بتایا۔

ذکی نے خوشدلی سے ہمارے ساتھ ایک سیشن کرنے کی حامی بھر لی۔ وہ اپنے ساتھ ایک چھوٹا رولینڈ ایمپلی فائر لائے تھے۔

مگر ذکی کو بڑے ایمپلی فائر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ انہیں کسی پیڈل یا پراسیسر کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا الیکٹرک گٹار ایمپلی فائر سے منسلک کیا اور ہمارے ہوش اڑا دیے۔

لکھاری اور عامر ذکی دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) پر ایک سیشن کے دوران۔

اس کے بعد کے ہمارے سیشنز میں ہم نے ان کے لیے ایک بڑے فینڈر ایمپلی فائر کا بندوبست کیا۔ وہ تو اسے بالکل اوپر تک لے جاتے تھے۔ ان سیشنز کے دوران ہم سب کی سماعت تھوڑی بہت متاثر ہوجاتی تھی۔ مگر یہ بھی ہے کہ ہم ویسا کچھ دوبارہ کبھی نہیں سنیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ میں ان کے جیسا گٹار دوبارہ کبھی نہیں سنوں گا۔

ان کے بارے میں آنے والے دنوں میں بہت کچھ لکھا جائے گا۔ گانے کے ساتھ انصاف کرنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے گٹار ہیرو تھے، ہمارے جمی ہینڈرکس، ہمارے اسٹیوی رے، ہمارے مسائل کے شکار اور پراسرار راک اسٹار۔

میرے بینڈ اور میں نے ان کی پریشانیاں بھی دیکھیں۔ ہم جانتے تھے کہ وہ ذہین ہیں مگر غلط جگہ پر ہیں۔ انہوں نے مشکل وقتوں کے دوران بھی اپنے میوزک اور اپنی ذات پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیے رکھا۔

ہم جانتے تھے کہ ان کے مشہور دوست بھی ان کے نرالے پن اور عام روش سے ان کے انحراف سے نالاں تھے۔ انہیں کسی قابلِ بھروسہ شخص کی ضرورت تھی، کوئی ایسا جو کارپوریٹ اسپانسرڈ میوزک کے سانچے میں ڈھل سکے۔

مجھے خوشی ہے کہ وہ بالآخر کوک اسٹوڈیو میں شامل ہوئے، مگر جب میں نے انہیں بغیر مسکرائے، اپنے پسندیدہ الیکٹرک گٹار کے بجائے ایک ہمبکر گٹار بجاتے ہوئے دیکھا تو میں جان گیا تھا کہ وہ وہاں ہیں، مگر وہاں نہیں ہیں۔ اور انہیں وہاں ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔

عامر ذکی۔ — فوٹو فیاض احمد۔
عامر ذکی۔ — فوٹو فیاض احمد۔

انہیں تو دنیا بھر کا دورہ کر کے، سگنیچر کی طرح درجنوں زبردست البمز ریکارڈ کروانے چاہیے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ان کے اندر وہ دھنیں، وہ گانیں چھپے ہوئے تھے جو وہ دنیا کو سنانا چاہتے تھے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ انہیں سن پائے، اور اسٹیج کے گلیمر کے بغیر، میرے دوست کے گھر پر۔

ہم ان کی صلاحیتوں پر حیراں ہوتے، تب بھی جب وہ ہمیں ہماری صلاحیتوں کی کمی پر لیکچر دے رہے ہوتے۔ مگر انہوں نے کبھی بھی ہمیں کمتر ثابت نہیں کیا۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں گٹار کتنا خراب بجاتا ہوں۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنا ایک گٹار مجھے دے دیا۔

ہم ایک لائیو پرفارمنس سے واپس لوٹ رہے تھے جب انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے وہ گٹار پسند ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہاں یہ بہت اچھا گٹار ہے۔ میرا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے مجھے وہ گٹار تھما دیا۔ "رکھ لو۔"

اس کے بعد وہ اکثر مذاق میں کہتے تھے کہ انہوں نے اس پر دستخط اس لیے نہیں کیے کہ کہیں میں ان کے مرنے کے بعد وہ گٹار بھاری قیمت پر نیلام نہ کر دوں۔

مگر وہ اپنی قیمت سے انجان تھے۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں