اسلام آباد: سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) ایکٹ 2016 کے قانون میں واضح ہدایات کے باوجود وزارت خزانہ نے ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کو عہدے سے ہٹانے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا جبکہ چیئرمین نے ایس ای سی پی کے ملازمین سے خطاب میں کہا کہ وہ کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ روز ظفر حجازی نے ایس ای سی پی کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے ان کے لیے بونس کا اعلان کیا، اس کے علاوہ انہوں نے ادارے کے ملازمین کو کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کرنے کو کہا۔

ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے ظفر حجازی کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو مستعفی ہورہے ہیں اور نہ کہیں جارہے ہیں۔

خیال رہے کہ وزارت خزانہ کے ایک سینئر افسر نے ڈان کو بتایا تھا کہ اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین اسد عمر کا کہنا تھا کہ کم سے کم وزارت خزانہ کو انہیں چھٹیوں پر ہی بھیج دینا چاہیے۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’ان کے خلاف ایف آئی آر کسی شخص کی جانب سے جھوٹے الزامات کے تحت درج نہیں کی گئی بلکہ یہ سپریم کورٹ کے حکم پر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت فنانس سیکٹر کو کس قسم کا تاثر دینا چاہتی ہے کہ ریگولیٹری باڈی کا چیئرمین فراڈ اور رد بدل کرنے میں ملوث ہے۔

یاد رہے کہ پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ چیئرمین ظفر حجازی چوہدری شوگر ملز کے ریکارڈ میں ہیر پھیر میں ملوث ہیں۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر الحق حجازی پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ جمع کرانے کے لیے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کی تھیں اور 19 جون کو سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو ہدایت دی تھی کہ وہ یہ معاملہ ایف آئی اے کو بھجوائیں۔

ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن ونگ کے ڈائریکٹر مقصود الحسن کی سربراہی میں ایس ای سی پی پر ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی چار رکنی ٹیم نے اپنی تحقیقات کا آغاز 23 جون کو کیا تھا جسے 30 جون تک مکمل کر لیا گیا۔

چار رکنی ٹیم نے اپنی رپورٹ 8 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ چیئرمین ایس ای سی پی چوہدری شوگر ملز کیس کے ریکارڈ میں تبدیلی کے ذمہ دار ہیں.

خیال رہے کہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ کے حکم پر شریف خاندان کے اثاثوں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقاتی کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کی شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سفارش

اس روز پاناما کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ نے کال اور ریکارڈ ٹیمپرنگ کے معاملے پر ایف آئی اے کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کی روشنی میں ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں ظفر حجازی کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمے میں سنگین نوعیت کے الزامات کی دفعات شامل کی گئیں، جبکہ ظفر حجازی پر سرکاری عہدے کا غلط استعمال کرکے ملزم کو فائدہ پہنچانے کا بھی الزام عائد کیا گیا، ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ سرکاری عہدے پر بیٹھ پر کاغذات میں رد و بدل کیا گیا۔

واضح رہے کہ سنگین نوعیت کی دفعات کے تحت جرم ثابت ہونے پر 14 برس تک سزا دی جاسکتی ہے۔

بعد ازاں 11 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی کی 17 جولائی تک کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ ہائی کورٹ اس کے لیے درست فورم نہیں اور وہ ایف آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج سے رابطہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں