اسلام آباد: قومی اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پاناما کیس میں مشترکہ تحقیقات ٹیم (جے آئی ٹی) کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حتمی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دن بدن زور پکڑنے لگا۔

اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ اجلاس جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں اپوزیشن کے چیمبر میں ہوا، جس کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کی۔

اجلاس میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر کے سربراہان اور نمائندوں نے شرکت کی۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی رپورٹ: نوازشریف کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان

تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ، شاہ محمود قریشی اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اجلاس کی کارروائی کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے ریکوزیشن قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ کے پاس جمع کرا دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی مناسب سمجھیں گے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور عوامی نیشنل پارٹی نے اجلاس میں تجویز دی ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے اور فی الوقت ان ہاؤس تبدیلی یا نئے الیکشن کے مطالبے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔

جبکہ تحریک انصاف نے بھی پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ان ہاؤس تبدیلی پر اتفاق کیا ہے۔

اس سے قبل جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبے کو وزیراعظم نواز شریف نے دو ٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی ان کے خلاف کوئی کرپشن کا الزام نہیں اس لیے استعفی نہیں دوں گا۔

یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں ان کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی ارکان کے اجلاس کے موقع پر کی، جس میں پارٹی کے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

انھوں نے دہرایا تھا کہ جے آئی ٹی کی متنازع رپورٹ ہمارے مخالفین کے بے بنیاد الزاما ت کا مجموعہ ہے، اس رپورٹ میں ہمارے موقف اور ثبوتوں کو جھٹلانے کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز پیش نہیں کی گئیں، صرف ہمارے خاندان کے 62 سالہ کاروباری معاملات کو مفروضوں، ذرائع سے حاصل رپورٹوںس، بہتان اور الزام تراشیوں کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا، ’جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی ایک جملہ ایسا نہیں جس سے اشارہ بھی ملے کہ نواز شریف کرپشن کا مرتکب ہوا ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں