اسلام آباد: پاکستان میں آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات کے حوالے سے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نگہت داد کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس وسائل اور اسٹاف کی کمی ہے، اگرچہ ان کی جانب سے ہر ممکن تعاون کیا جاتا ہے لیکن یہ عمل سست روی کا شکار رہتا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے نگہت داد نے کہا کہ اگرچہ اس قسم کے مسائل کے حل کے لیے قانونی طریقہ کار بہتر ہوا ہے لیکن اس وقت اس میں بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں، جیسا کہ تفتیشی افسران بہت کم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرے خیال میں پورے پنجاب کے لیے 9 کے قریب تفتیشی افسران موجود ہیں، ساتھ ہی انہوں نے وزارت داخلہ پر زور دیا کہ وہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو مکمل وسائل فراہم کرے تاکہ وہ یہ مسائل حل کرسکے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نے اپنی تنظیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے دسمبر 2016 میں ٹال فری ہیلپ لائن کا آغاز کیا، جس کا مقصد آن لائن ہراساں ہونے والی خواتین کو مدد فراہم کرنا تھا، اگست 2016 میں سائبر کرائم بل منظور ہونے کے بعد ہمارا مقصد عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہے کہ ہراساں ہونے کی صورت میں وہ کس قسم کی چارہ جوئی کرسکتی ہیں۔

نگہت داد کے مطابق آن لائن ہراساں ہونے کے بعد بہت سی خواتین اس معاملے پر بات کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ کر نہیں پاتیں کیوں کہ اسے معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا، لیکن ہم ان کی بات سن کر انھیں رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور بہت سی کالز کو ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سپرد کر دیتے ہیں۔

مزیر پڑھیں:سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہیے

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ہم ذہنی دباؤ کی شکار خواتین کو کونسلنگ فراہم کرتے ہیں جو ان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے نفسیاتی طور پر ان کی مدد کرتی ہیں۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے سابق اہلکار عون عباس نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس آنے والی شکایات میں سے 65 فیصد شکایات ہراساں کیے جانے کی آتی ہیں، ہراساں ہونے والی 80 فیصد خواتین معلومات ہونے کے باعث اپنا کیس رپورٹ نہیں کر پاتیں اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ خواتین ایف آئی اے کے پاس آنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں کہ معلوم نہیں انہیں بعد میں کس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔

عون عباس کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایف آئی اے نے سائبر کرائم ڈپارٹمنٹ میں لیڈی آفیسر یونٹ بنائی ہوئی ہے جو شکایات لے کر آنے والی خواتین کے مسائل حل کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آن لائن سائبر کرائم کے قوانین کی عدم موجودگی خواتین کے لیے خطرہ

انہوں نے مزید کہا کہ ہراساں ہونی والی خاتون کی جانب سے سب سے پہلے یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کر دیا جائے لیکن اس میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پھر ثبوت کے طور پر اسے عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات متاثرہ شخص میں ڈپریشن اور دیگر ذہنی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ ہراساں کرنے کے واقعات فیس بک پر پیش آتے ہیں، اس ادارے کو 6 ماہ کے دوران ہراساں کرنے کی 763 شکایات موصول ہوئیں جس میں سے 67 فیصد خواتین اور 37 فیصد مردوں نے شکایات کا اندراج کروایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں