کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک میں بینکوں کے 30 فیصد معاملات 20 کاروباری گروپس کے ساتھ جاری ہیں۔

رواں ہفتے مرکزی بینک کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بینکوں کے قرضوں میں اضافے کا انحصار کافی حد تک کارپوریٹ سیکٹر پر ہوتا ہے جو اس وقت ملک کے بینکوں سے 70 فیصد قرضہ لے رہے ہیں۔

تاہم خطے کے دیگر ریاستوں کی معیشت کے مقابلے میں پاکستانی معیشت میں بینکوں کا قرضہ نہایت کم ہے جس کا تناسب وقت کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ 25 برس میں نجی شعبے میں جی ڈی پی کریڈٹ کی شرح کم ہوئی۔

بینکوں نے خصوصی طور پر کارپوریٹ سیکٹر پر توجہ دیتے ہوئے چھوٹی اور درمیانی کمپنیوں (ایس ایم ای)، زراعت اور گھریلو صنعت کو غیر اہم تصور کیا جس کے بعد بینکنگ کے نظام کے لیے خطرہ بڑھ گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں بینکوں کے قرضوں میں مجموعی اضافہ اب بھی کم ہے کیونکہ ملک کی بڑی کمپنیاں بینکوں سے قرضے لینے کے بجائے اپنے ہی وسائل استعمال کرتے ہوئے فنڈز جمع کر لیتی ہیں۔

نجی شعبے میں قرض کی مجموعی صورتحال گذشتہ کئی عرصے سے خراب ہے اور اس حوالے سے بینک بھی اپنے ڈپازٹرز کی رقوم کو موثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے قرض لینے والے کاروبار اور افراد کو مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر منظم نتیجہ ملکی معیشت پر زبردست اثر انداز ہوسکتا ہے جس میں نجی سرمایہ کاری کی مایوس کن حالت، آبادی کے ایک بڑے حصے کا مالی اور سماجی اخراج شامل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2008 کے بعد سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر اقتصادیات اور سرمایہ کاری کے ماحول میں کافی حد تک تبدیلی آنا شروع ہوئی، پاکستان میں عالمی معاشی بحران نے بھی اپنے اثرات دکھائے لیکن ملک میں جاری امن و امان کی ابتر صورتحال اور توانائی بحران نے پاکستان کے مقامی کاروبار کو زبردست نقصان پہنچایا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ قرضوں کی ادائیگیوں کے توازن میں رکاوٹیں بھی مالی نظام پر بڑے پیمانے پر اثر انداز ہوئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا 2006 سے 2015 تک ملک کے خالص اثاثوں میں جی ڈی پی کی شرح صرف 5 فیصد رہی جبکہ اسی دوران تھائی لینڈ کی 42 فیصد، ملیشیا کی 36 فیصد، بھارت کی 18 اور بنگلہ دیش کی 8 فیصد رہی۔

رپورٹ کے مطابق بھارت، سری لنکا، مصر، ترکی اور ملیشیا گذشتہ 15 برس سے مسلسل خسارے میں ہیں لیکن پھر بھی ان ممالک میں اسی عرصے میں بینکنگ قرضوں میں کمی نہیں آئی خاص طور پر بھارت، برازیل اور مصر میں بینکوں کے سرکاری اداروں میں قرضے موجود ہیں لیکن پھر بھی یہ بینک نجی شعبے کی ترقی میں احسن طریقے سے کام انجام دے رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا پاکستان کی جی ڈی پی میں 30 سے 40 فیصد حصہ ہے جبکہ یہ صنعتیں بینک کے قرضوں کا صرف 6 فیصد ہی حاصل کر پاتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نجی سیکٹر میں قرضوں کو بڑھانا حتمی مقصد نہیں بلکہ مالی معاونت سے محروم چھوٹی صنعتوں کو منصفانہ اصلاحات پر قرضوں کی فراہی کو یقینی بنایا جائے۔


یہ خبر 30 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں