سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ ہوچکا تھا اور صرف جواز ڈھونڈا جا رہا تھا اور جب کچھ نہیں ملا تو معمولی سی بات پر نکال دیا گیا۔

اسلام آباد میں ٹی وی اینکر پرسنز سے ملاقات کے دوران نواز شریف نے کہا کہ ’پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں واٹس ایپ کے ذریعے وہ لوگ لائے گئے جنہیں لانا مقصود تھا، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افراد کو شامل کیا جائے، جبکہ اس طرح کی رپورٹس کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں، پاناما کیس میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی جس میں مجھے نااہل کیا جاتا، ججز نے کیس کی سماعت کے دوران گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہا، ایک جج نے یہاں تک کہا کہ وزیر اعظم کو پتہ ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں کافی جگہ ہے، ایسے ریمارکس پر افسوس ہوا جبکہ ججز کو ایسے جملوں سے گریز کرنا چاہیے۔‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’نیب کا قانون سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سیاستدانوں بالخصوص مجھے نشانہ بنانے کے لیے بنایا، سپریم کورٹ نے نیب کو چھ ہفتے میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا گیا، ممکن ہے جے آئی ٹی اس عرصے میں کچھ اور تلاش کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نیب کی تحقیقات کے دوران سپریم کورٹ کا جج نگراں بیٹھا ہوگا تو کل کو اپیل کہاں کریں گے، اس طرح سے ملک چل نہیں سکتا جس طرح چلانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ایسا چلتا رہا تو ملک بیٹھ جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کروڑوں لوگ مینڈیٹ دیں اور پانچ نوبل افراد چلتا کر دیں تو یہ مناسب نہیں، عوامی مینڈیٹ کا مجھے بھی احترام ہے، دوسروں کو بھی کرنا چاہیے جبکہ چار سال قوم کی امانت میں کوئی خیانت نہیں کی۔‘

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’بدھ کے روز اپنے گھر جارہا ہوں احتجاج نہیں کر رہا، میں بحالی کے لیے جی ٹی روڈ سے نہیں جا رہا، مقصد بڑا ہے اور ملک و قوم کے لیے رسک لینا پڑتا ہے۔‘

ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق درخواست مسترد ہونے پر سابق وزیر اعظم نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مشرف کی طرح بھاگنے والا نہیں، کیا ایسے جج موجود ہیں جو مشرف جیسے آمر کا احتساب کریں؟ جیسے بھی حالات ہوں مقابلہ کروں گا۔‘

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی نااہلی کے بعد لاہور میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور لاہور پہنچنے پر نواز شریف کا بھرپور استقبال کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

عرفان انور Aug 08, 2017 05:57am
عدالتوں سے ہر روز فیصلے ہوتے ہیں جس کے حق میں آئے وہ مطمئن جس کے خلاف آئے وہ غیر مطمئن ۔ بشری تقاضوں سے کسی جج سے کوئی واقعاتی غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ ہارنے والا عدالت کے خلاف سڑک پہ نکل آئے ۔ میاں صاحب کو سوچنا چاہئے کہ ایسے قدم کے کیا مضمرات ہو سکتے ہیں اگر ان کی یہ بات درست مان بھی لی جائے کہ ان کی نااہلی کا فیصلہ کسی کے 'اشارہ' پہ ہوا ہے تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اگر 'اشارہ' فیصلہ کرا سکتا ہے تو اس پہ عمل درآمد کرانے کی بھی طاقت رکھتا ہوگا۔ اداروں کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات میں نہ کسی فرد کی بھلائی ہوتی ہے نہ ملک کی ۔