اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عینی شاہد نہ ہونے پر چچا اور ان کے 5 بچوں کو قتل کرنے والے مجرم کی پھانسی کی سزا عمر قید میں تبدیل کردی۔

غلام مصطفیٰ کو 2006 میں پاکپتن میں 6 افراد کے قتل کے کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے بھی ان کی سزائے موت برقرار رکھی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے غلام مصفطیٰ کی اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے مجرم کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ قتل کی واردات کا کوئی عینی شاہد نہیں۔

مزید کہا گیا کہ قتل کی وجہ عناد ڈکیتی ثابت نہیں ہوتی، لہذا قتل کی اصل وجہ پراسرار ہونے کے باعث ہم محتاط ہیں۔

مزید پڑھیں: سزائے موت کی عمر قید میں تبدیلی، بل پر مشاورت مکمل

عدالت نے پراسیکوشن نظام پر بھی برہمی کا اظہار کیا، جسٹس دوست محمد نے کہا کہ صوبے پراسیکیوشن پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں،اس کے باوجود پراسیکیوشن کا شعبہ اپنا کام نہیں کرپاتا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف پراسیکیوٹر نے آدھا صفحہ لکھا اور وہ مشکل میں پڑ گیا، انسانی زندگیوں سے کھیلنا بند ہونا چاہیے'، یہاں جسٹس کھوسہ نے سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کا تذکرہ کیا، جنہیں 2012 میں 19 ہزار ڈالرز جرمانے اور اعتماد کو مجروح کرنے پر معطل قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتیں اور سزائے موت کا قانون

جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'جس نے ایک شخص کو مارا اس نے پوری انسانیت مار دی'۔

دوسری جانب جسٹس دوست محمد نے کہا کہ 'ملک کی بدقسمتی ہے کہ جس کی ڈیوٹی ہوتی ہے وہ سر انجام نہیں دیتا، ایک فساد برپا کرتا ہے دوسرا رد کرتا ہے'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں