اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ کی 10ویں جِلد تک رسائی کی اجازت دے دی۔

واضح رہے کہ نیب نے پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کے سلسلے میں 18 اگست کو مزید تحقیقات کے لیے طلب کر رکھا ہے۔

اس سے قبل نیب کو جے آئی ٹی رپورٹ کی باقی تمام جِلدیں فراہم کر دی گئی تھیں، تاہم جِلد 10 کو روک لیا تھا۔

بعدازاں نیب نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کی تمام جِلدوں کی مصدقہ نقول کے حصول کی استدعا کی تھی۔

مزید پڑھیں: نیب نے جے آئی ٹی رپورٹ کی 10ویں جِلد طلب کرلی

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 'براہ کرم جے آئی ٹی رپورٹ کے مکمل سیٹ کے ساتھ احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے لیے جاری ہونے والا ضمیمہ پیش کیا جائے'۔

جے آئی ٹی رپورٹ کی 10ویں جِلد میں مختلف ممالک سے حاصل ہونے والی باہمی قانونی مشاورت کی تفصیلات موجود ہیں جنہیں جے آئی ٹی چیئرمین واجد ضیاء کے اصرار پر منظر عام پر نہیں لایا گیا تھا۔

خیال رہے کہ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل جے آئی ٹی عملدرآمد بینچ نے نواز شریف کے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث احمد کو جِلد 10 کے دو صفحات دیکھنے کی اجازت دی تھی۔

رپورٹ کے خلاصے کے مطابق اس جلد میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 21 کے تحت جے آئی ٹی چیئرمین کی جانب سے بھیجی گئیں مشترکہ قانونی معاونت کی درخواستیں شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'عدلیہ مخالف تقاریر': نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست

یہ درخواستیں برٹش ورجن آئی لینڈز کے اٹارنی جنرل، برطانیہ کی سینٹرل اتھارٹی، سعودی عرب کی وزارت داخلہ، متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف، سوئٹرزلینڈ کی سینٹرل اتھارٹی اور لیگزمبرگ کے پراسیکیوٹر جنرل سے کی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 64(1)(ایف) کے تحت نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا تھا جبکہ نیب کو راولپنڈی کی احتساب عدالت میں شریف خاندان اور اسحٰق ڈار کے خلاف 6 ہفتوں کے اندر اندر 4 ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت دی تھی۔

نیب کے کام کی نگرانی اور رہنمائی جبکہ احتساب عدالت کی کارروائی پر نظر رکھنے کے لیے سپریم کورٹ نے اپنے ایک جج جسٹس اعجاز الحسن کو نامزد کر رکھا ہے۔

آزاد مبصرین کہتے ہیں کہ شریف خاندان کے خلاف کرپشن کیسز کی یہ تحقیقات آنے والے وقتوں میں پاکستان میں احتساب کا معیار طے کرسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں