نفرت انگیز تقاریر: تحقیقات کیلئے برطانیہ نےپاکستان سےمدد طلب کرلی

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین —فائل فوٹو
بانی متحدہ قومی موومنٹ الطاف حسین —فائل فوٹو

لندن: برطانیہ کی کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) لندن کے بانی الطاف حسین کی نفرت انگیز تقاریر کی تحقیقات کے لیے پاکستان کی مدد طلب کرلی۔

ڈان کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق برطانوی انتظامیہ الطاف حسین کی 11 مارچ 2015 اور 22 اگست 2016 کی تقاریر کے نتیجے میں سامنے آنے والے اشعال انگیزی کے واقعات پر غور کررہی ہے۔

برطانیہ کی جانب سے الطاف حسین پر اشتعال انگیزی کو ہوا دینے، برطانیہ سے باہر موجود افراد کو دہشت گردی پر اکسانے اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی جیسے الزامات عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

بانی ایم کیو ایم کے خلاف زیر غور دیگر الزامات میں جان بوجھ کر جرم کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنا شامل ہے،یہ مختلف جرائم دہشت گردی ایکٹ، سیرس کرائم ایکٹ، اور پبلک آرڈر ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس حوالے سے جب ایم کیو ایم کا ردعمل لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے تبصرے سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ رواں سال 8 اگست کو پاکستان کو بھیجی جانے والی برطانوی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح 22 اگست 2016 کی تقریر کے بعد الطاف حسین کے کراچی میں موجود حمایتی طیش میں آگئے۔

یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کے گھر میں 2 افراد کے داخل ہونے کی ناکام کوشش

دستاویز میں کہا گیا کہ ’ایسا محسوس ہوا کہ اپنی تقریر کے اختتام میں الطاف حسین حاضرین کو آگے بڑھنے اور مقامی میڈیا اسٹیشنز پر حملے کی حوصلہ افزائی کررہے تھے‘۔

سی پی ایس کے مطابق مظاہرین نے اے آر وائی نیوز آفس پر حملہ کردیا ’اشتعال انگیزی کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے‘۔

اس دستاویز میں ہلاک ہونے والے شخص کا نام عارف سعید بتایا گیا۔

22 اگست کی تقریر میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ’پاکستان دنیا بھر کے لیے دردِ سر ہے، پاکستان دنیا بھر میں دہشت گردی کا مرکز ہے، کون کہتا ہے پاکستان زندہ باد‘۔

تقریر میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ یہاں سے اے آر وائی اور سماء کے دفاتر جارہے ہیں؟‘ جس پر ان کو سننے کے لیے موجود ہجوم نے مثبت جواب دیا۔

الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ’تو آج آپ سماء اور اے آر وائی جائیں اور کل رینجرز کے سامنے کے لیے خود کو تازہ دم کریں جبکہ کل ہم سندھ حکومت کی عمارت جیسے سندھ سیکریٹریٹ کہا جاتا ہے اسے لاک ڈاؤن کردیں گے‘۔

سی پی ایس کی اس دستاویز میں رینجرز کے نائن زیرو پر چھاپے کے بعد 11 مارچ 2015 کو کی گئی غیر معروف تقریر کا حوالہ بھی شامل ہے۔

دستاویز کے مطابق رینجرز کے چھاپے کے بعد الطاف حسین نے جیو ٹی وی کو لائیو انٹرویو دیا، اس انٹرویو کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق الطاف حسین نے چھاپے کی مذمت کرتے ہوئے چھاپے کے دوران ایم کیو ایم کارکن وقاص شاہ کے موت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا تھا۔

علاوہ ازیں انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ نائن زیرو سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور ہتھیار رینجرز نے خود وہاں پلانٹ کیے تھے۔

برطانوی دستاویز کے مطابق ’رینجرز نے وقاص شاہ کی ہلاکت کے الزام کو مسترد کیا‘۔

دوسری جانب یہ بھی خیال رہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ایم کیو اہم کے کارکن سید آصف علی کو وقاص شاہ کے قتل پر موت کی سزا سنائی گئی۔

سی پی ایس کی دستاویز مارچ 2015 میں ہونے والے واقعات کی ترتیب کے حوالے سے الجھن کا شکار دکھائی دیتی ہے، ایک مقام پر کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کارکن وقاص شاہ کا قتل الطاف حسین کی جانب سے جیو ٹی وی کو دیئے جانے والے انٹرویو سے قبل نائن زیرو میں چھاپے کے دوران ہوا تاہم بعد ازاں ایک مقام پر کہا گیا کہ وقاص شاہ کا قتل الطاف حسین کی تقریر کے بعد سامنے آیا۔

اس سوال کے جواب میں کہ الطاف حسین نے اس قتل کے لیے لوگوں کو کیسے اکسایا جو ان کی تقریر سے پہلے ہوا تھا سی پی ایس کا کہنا تھا کہ اسٹاف کی چھٹیوں کی وجہ سے انہیں بیان کی تیاری کے لیے زیادہ وقت درکار تھا۔

تقاریر کی موجودہ انکوائری جسے ’آپریشن ڈی میرٹ‘ کا نام دیا گیا تھا، کا آغاز رواں سال فروری میں میٹروپولیٹن پولیس کاؤنٹر ٹیررازم کمانڈ نے کیا، ابتدائی طور پر آپریشن ڈی میرٹ کے دوران الطاف حسین کی 6 تقاریر کا جائزہ لیا جارہا تھا لیکن سی پی ایس دستاویزات کے مطابق اب صرف 2 تقاریر کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

اس آپریشن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ترجمان میٹروپولیٹن پولیس نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان کو درخواست کا بین الاقوامی خط بھیجا جاچکا ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں کہ الطاف حسین پر الزامات عائد کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے میں کتنا وقت لگے گا۔

خیال رہے کہ سی پی ایس نے پاکستان سے اس سلسلے سے کافی مدد طلب کی ہے، لندن اسلام آباد سے ان دونوں تقاریر کے حوالے سے ہونے والی تمام تحقیقات کی نقول کا مطالبہ کررہا ہے، سی پی ایس کو سندھ پولیس کی فائلز، سندھ کاؤنٹر ٹیررازم ڈویژن کی تحقیقاتی فائلز، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی فائلز اور سندھ رینجرز کی فائلز بھی درکار ہیں۔

سی پی ایس تقاریر کی کاپیاں اور اس کے بعد پیدا ہونی والی صورتحال کی ویڈیو کا بھی مطالبہ کررہا ہے جس کے ذریعے ’الطاف حسین کے مجرمانہ اقدامات کی نشاندہی میں مدد حاصل ہوسکے گی‘۔

برطانوی دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی معلومات برطانیہ میں ہونے والی کارروائی میں استعمال کی جاسکتی ہے جبکہ مستقبل میں پاکستان بھی برطانیہ سے اس قسم کی مدد کی توقع رکھ سکتا ہے۔

یاد رہے کہ االطاف حسین کی تقاریر کے حوالے سے جاری یہ تحقیقات ایم کیو ایم بانی کے خلاف جاری واحد برطانوی پولیس انکوائری ہے۔

گذشتہ 12 ماہ کے دوران برطانوی انتظامیہ ایم کیو ایم سے جڑے معاملات میں طویل عرصے سے جاری تحقیقات کے دو سلسلوں کو منقطع کرچکی ہے جن میں سے ایک منی لانڈرنگ جبکہ دوسرا 2010 میں ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل سے جڑا تھا۔


یہ خبر 6 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں