indian_cinema_670
برصغیر کی پہلی خاموش فلم، 'راجہ ہریش چندرا' کا ایک سین -- فائل فوٹو

کراچی کے سنیما شائقین کو آفریں ہے، جنہوں نے برصغیر سنیما کے صد سالہ جشن کے لئے پبلک ایونٹ کا اہتمام کیا اور ادھر ہمارے فلم ساز، ایک بار پھر، مزید امداد کے لئے فریاد کر رہے ہیں-

پاکستانی فلمی صنعت، نے فلم سازی کا 100 سالہ جشن کیوں نہیں منایا؟ یہ بات قابل غور ہے- سنہ 2013 میں، برصغیر میں فلم سازی کے سو سال پورے ہوے- ہم یہاں فلموں کی نمائش کی بات نہیں کر رہے، جو ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی سے شروع ہوئی ہے- اور باوجود اس کے کہ انڈین فلم سازوں کی طرف سے اس قابل فخر موقع میں شریک ہونے کے لئے مدعو بھی کیا گیا-

اس کی ایک وجہ، پاکستانی عوام کی تہذیبی وراثت کے حوالے سے منتشر سوچ بھی ہو سکتی ہے- اگر وہ تقسیم سے پہلے، برصغیرکے فن و ادب کو مسترد کرتے ہیں تو پھر وہ نا صرف عظیم انڈو-اسلامک ثقافت کے ورثے کو نامنظور کرتے ہیں، بلکہ میر، غالب اور اقبال کی شاعری کو بھی مسترد کرتے ہیں (جنہوں نے اپنی پوری زندگی انڈیا میں گزاری)-

اگر ہمارے لوگوں کی ثقافتی تاریخ سنہ 1947 سے شروع ہوتی ہے تو پھر ہمارا کوئی قابل ذکر ثقافتی ورثہ ہے ہی نہیں-

اگر جو کچھ بھی ان علاقوں میں کیا گیا، جنہیں ہم آج پاکستان کہتے ہیں، اور انہیں اپنی روایات کا حصّہ سمجھتے ہیں، تو پھر ہمیں ہڑپہ اور موئن جو داڑو کو، اپنے آباؤ اجداد کی ایک تہذیب یافتہ معاشرے کے وجود کی انسانی جدوجہد میں گراں قدر خدمات کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے، نا ہی نانک اور پورس کی زندگیوں کا جشن منانے میں-

لیکن اگر وہ کام، جن پر اسلام کا لیبل لگا ہوا صرف وہی پاکستانی عوام کے ثقافتی ورثے کا حصّہ بن سکتے ہیں، تو پھر سنیما کا صد سالہ جشن، اس بات پر منحصر ہے کہ آیا اسلام میں فلم سازی کی اجازت ہے یا نہیں-

اس حقیقت کو تسلیم کرلینا ہی سمجھداری ہوگی کہ پاکستانی لوگ، اس بڑی انڈین کمیونٹی کا حصّہ رہے ہیں، جو ایک صدی پہلے اپنی سرزمین پر سنیما کی آمد پر نہایت پرجوش تھے-

اس کے علاوہ، لاہور سنیما کا، انڈین سنیما (یا برصغیر سنیما، اگر کوئی فرقہ وارانہ تنہائی پسندی کے خمار سے نہ نکل پا رہا ہو) میں کوئی معمولی حصّہ نہیں ہے-

لاہور میں بنی پہلی خاموش فلم، 'راجہ ہریش چندرا' کے صرف ایک دہائی بعد ہی آئی تھی، اور لاہور نے اپنی پہلی بولتی فلم، بمبئ کی 'عالم آراء' کے بمشکل ایک سال بعد ہی پیش کر دی تھی-

چناچہ، بجاۓ اس کے کہ پاکستان سنیما کے صد سالہ جشن کے لئے ایک دہائی تک مزید انتظار کیا جاۓ، اس دعوے کے ساتھ کہ تقسیم سے پہلے لاہور گروپ( اے. آر. کاردار سے لے کر نذیر) اور مہرہ، پنچولی اور شورے کا سارا کام، پاکستان کے حصّے میں آتا ہے، یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ انڈین سنیما کے سو سالوں کو مخلوط روایت کے طور پر دیکھا جاۓ-

جگہ کی کمی کے باعث، انڈین سنیما کے لوگوں کی زندگی میں کچھ کردار سے اور آگے، اس کی کامیابیوں اور خامیوں پر تفصیلی گفتگو کرنا ممکن نہیں-

لوگوں کی تفریح کی پیاس مٹانے کے علاوہ، انڈین سنیما نے اجتماعی قدروں اور مشترکہ زبان کے فروغ میں بھی کردار ادا کیا ہے- اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہوا کہ علاقائی زبانوں میں سنیما کو آگے بڑھنے کا موقع ملا اور وہ بھی آرٹ کے مرکزی بہاؤ میں شامل ہو گئیں- سب سے بڑھ کر یہ کہ، انڈین فلم انڈسٹری نے، افسوس کہ بہت مختصر عرصے کے لئے، لیکن ایک متوازی سنیما کو پروان چڑھا کر بہت عزت کمائی-

اگر بچی کھچی پاکستانی فلم انڈسٹری، سو سال پہلے فلم سازی کی شروعات کے سفر کا جائزہ لینے کی زحمت کرے، تو یہ ہوسکتا ہے کہ تقسیم کے بعد، پاکستان سنیما کا بارے میں ایک مفید تنقید ممکن ہو سکے-

برصغیر کے سنیما کے پاکستانی عنصر کی کہانی، گنواۓ گۓ موقعوں اور اس ذرایع کے ترقی پسند استعمال کو برقرار رکھنے میں معاشرے کی ناکامی سے رقم ہے- فلم سازوں نے بومبے فارمولا رومانوی کہانیوں کی نقل کرنا شروع کر دیں- انہیں، تقسیم کے سماجی نتایج کا زیادہ اندازہ نہیں تھا، یا شاید اس واقعے کا فلم سازوں کے ذہنوں پر بہت کم اثر ہو،ا جو انہیں حقیقی طور پر فنکارانہ سرگرمیوں کے لئے متاثر کرتا-

جب وہ انڈین فلموں کی درامد کے آگے، مقابلہ ہار گۓ تو انہوں نے مدد کی درخواست کی- یہاں بھی وہ لوگوں کی زندگیوں سے متعلقہ سنیما کی ترقی کے لئے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے- سواۓ اردو فلموں میں موقع بے موقع کچھ انفرادی کوششوں کے اور پنجابی سنیما میں بڑے پیمانے پر-

مشرقی بنگال کے فلم سازوں نے بھی اسی فارمولا پر عمل کرنا شروع کیا تھا لیکن پھر بھی وہ اس قابل نکلے کہ اپنی قومی حقوق کی تحریک میں سے تازہ آئیڈیاز اور مضبوط موضوعات نکال سکیں- پھر بھی، مشہور موضوعات پر بہت کم فلم سازوں نے تسلی بخش فلمیں پیش کی ہیں اور اب بھی ان میں سے کچھ، اس کوشش میں لگے ہوے ہیں-

اکثر حکومت کو اس بات کا الزام دیا جاتا ہے کہ وہ سنیما کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور اس کے فروغ کے لئے کچھ نہیں کر رہی- یہ بڑی حد تک درست بھی ہے- لیکن حکومت کی کوتاہیاں، اس بات کا عکس ہیں کہ ریاست، سماجی تبدیلی اور عوام کی صلاحیت، بہتر بنانے کے لئے سنیما کے کردار کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے-

گزشتہ کئی سالوں سے، پاکستان فلم انڈسٹری شدید بحران کا شکار ہے- تجارتی کامیابیاں بہت کم ہوئی ہیں- متبادل سنیما کی حوصلہ افزائی کم کی گئی- باوجود اس کے کہ انڈسٹری سے باہر کے فلم سازوں نے اس حوالے سے رہنمائی بھی دی، جیسے شعیب منصور، مہرین جبّار اور حسن زیدی-

مختصر فلموں کے حلقے میں متاثرکن سرگرمی نظر آئی ہے، اور وہ راستہ، جو سماجی آگہی کے لئے بنائی جانے والی دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر، مشتاق غضدار (اور پاکستانی فلم پر لکھی گئی کتاب کے مصنف) نے دکھایا تھا، اسے کچھ قابل فنکاروں (صبیحہ ثمر سے لے کر شرمین عبید-چنوئے تک) نے آگے دریافت بھی کیا ہے-

اس حقیقت کی کوئی تردید نہیں کر سکتا کہ فلم، اظہار خیال کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے اور اس میں عوام میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لئے، صلاحیت موجود ہے-

آج پھر فلمی طبقہ، تحفظ کے لئے تحریک چلا رہا ہے- فلم ڈسٹریبیوٹرز، درآمدی فلموں پر عائد نئے ٹیکس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں- جبکہ فلمساز، ایسی درامدات کا خاتمہ چاہتے ہیں-

آخرالذکر کو سنہ 1954 - 2002 تک حاصل تحفظ کا مطالبہ منظور نہیں کیا جا سکتا، لیکن مدد کے لئے ان کی درخواست غور و غوض کے لائق ضرور ہے-

ڈسٹریبیوٹرز کا درآمدی خرچ پر عائد ٹیکس کے خلاف احتجاج بھی وزن رکھتا ہے- ڈیوٹی کا اطلاق درآمدی شے کی قدر پر ہوتا ہے، جہاں سے اسے درآمد کیا جا رہا ہے، اس مقام پر نہیں- درآمدی فلموں کی قیمت یا کرایہ کے حساب سے، اس پر درجاتی ٹیکس لگایا جاۓ-

اور اگر، ملکی فلمی صنعت کی بہتری کا ارادہ ہے تو سنیما ٹکٹوں پر، ایک چھوٹا سا ٹیکس لگا دیا جاۓ اور اس کی آمدنی ان یونیورسٹی اور انسٹیٹیوشنز کے درمیان تقسیم کی جاۓ جو فلم سازی کے فن میں تعلیم اور تربیت دے رہے ہیں-

یہ ایک مصالحت اندیش سرمایہ کاری ہو گی-


ترجمہ : ناہید اسرار

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں