لاہور: عدالتی حکم کے باوجود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں جسٹس باقر نجفی انکوائری رپورٹ فراہم نہ کرنے پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری پنجاب کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی گئی، جسے سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

توہین عدالت کی یہ درخواست آصف اقبال اور متاثرہ افراد نے دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت عالیہ کے سنگل بنچ نے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ فوری طور پر شائع کرنے کا حکم دے رکھا ہے، عدالتی حکم کے مطابق درخواست گزاروں نے رپورٹ کی وصولی کے لیے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا مگر انہیں رپورٹ فراہم نہیں کی گئی جو کہ آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت واضح طور پر توہین عدالت ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ چیف سیکرٹری پنجاب اور ہوم سیکرٹری پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ماتحت ہیں اور وزیراعلیٰ کے دباؤ پر رپورٹ فراہم نہیں کی جا رہی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت وزیراعلیٰ پنجاب، چیف سیکریٹری اور ہوم سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائے۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ فراہم نہ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرلی، جہاں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پیر (25 ستمبر) کو کیس کی سماعت کریں گے۔

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔

بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے درخواست

گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

مذکورہ درخواست پر سماعت کے بعد رواں ماہ 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا پتہ ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔

پنجاب حکومت کی لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل

دوسری جانب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں جسٹس باقر نجفی انکوائری رپورٹ منظرعام پر لانے کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے لاہور ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کردی۔

حکومت پنجاب کی یہ اپیل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمٰن خان کی سربراہی میں لاء افسران نے تیار کی ہے، جسے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم علی چوہان کے دستخط کے ساتھ لاہور ہائیکورٹ میں دائر کیا گیا۔

20 صفحات پر مشتمل انٹرا کورٹ اپیل میں شہداء کے بیس ورثاء کو فریق بنایا گیا، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سنگل بنچ نے حکومتی موقف پوری طرح نہیں سنا اور یکطرفہ فیصلہ دیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو عام کرنا غیر قانونی عمل: پنجاب حکومت

اپیل میں کہا گیا کہ انکوائری رپورٹ کے متعلق درخواستیں فل بنچ میں زیر التوا ہیں، لہذا سنگل بنچ فیصلہ نہیں کرسکتا۔

مزید کہا گیا کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل کے خلاف بھی درخواستیں فل بنچ کے پاس زیر سماعت ہیں، سنگل بنچ نے جلد بازی میں قانونی تقاضوں کے برعکس فیصلہ دیا۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ حکومت جوڈیشل انکوائری حقائق جاننے کے لیے کراتی ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکا جاسکے۔

پنجاب حکومت نے استدعا کی کہ عدالت انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔

تبصرے (0) بند ہیں