صومالیہ: ہوٹل میں دھماکے سے 18 افراد ہلاک

29 اکتوبر 2017
موغادیشو کے ہوٹل میں مسلح افراد نے فائرنگ بھی کی—فوٹو: اے پی
موغادیشو کے ہوٹل میں مسلح افراد نے فائرنگ بھی کی—فوٹو: اے پی

صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں ایک مشہور ہوٹل کے باہر بم دھماکے کے نتیجے میں 18 افراد ہلاک اور 30 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ عمارت کے اندر موجود دہشت گردوں نے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا۔

خبرایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن محمد حسین کا کہنا تھا کہ صدارتی محل کے قریب واقع ناسا ہیبالود ہوٹل کی آخری منزل میں دہشت گردوں نے حکومتی عہدیداروں سمیت 20 افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

ہوٹل میں دو دھماکے سنے گئے ایک دھماکا اس وقت جب خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا دیا۔

کیپٹن محمد حسین کا کہنا تھا کہ پانچ حملہ آوروں میں سے دو کو پہلی منزل میں ہی ہلاک کیا گیا تھا جبکہ دیگر حملہ آوروں نے گرینیڈ کے ذریعے ہوٹل کی بجلی کو منقطع کردیا۔

خیال رہے کہ صومالیہ کے دارالحکومت میں دو ہفتے قبل بھی ایک ہوٹل میں کار بم دھماکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں 350 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں:صومالیہ کی تاریخ کا بدترین دھماکا: ہلاکتوں کی تعداد 276 ہوگئی

موغادیشو کے ناسا ہیبالود ہوٹل میں ہونے والے تازہ دھماکے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم الشہاب نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے جنگجو ہوٹل کے اندر موجود ہیں۔

دھماکے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کیپٹن محمد حسین نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں ہونے والی فائرنگ اور دھماکے کی آوازیں دور دور تک سنی گئیں جبکہ ہلاک ہونے والے افراد میں صومالیہ پولیس کے سینیئر کرنل اور سابق رکن پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔

ایک عینی شاہد محمد دیک حاجی، جو دھماکے کے وقت وہاں موجود تھے تاہم خوش قسمتی سے بچ گئے تھے، کا کہنا تھا کہ انھوں نے فوجی وردی میں ملبوس تین مسلح افراد کو دھماکے کے بعد ہوٹل کے دروازے کی جانب آتے دیکھا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 'میرا خیال ہے کہ وہ الشہاب کے جنگجو تھے جنھوں نے ہوٹل کو آگ لگا دی تھی'۔

یاد رہے کہ 15 اکتوبر کو موغادیشو کے ہوٹل میں ہونے والے بم دھماکا ملک کی تاریخ کا بدترین دھماکا تصور کیا جارہا ہے جہاں سیکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

صومالی وزارت اطلاعات کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے اس سانحے میں 276 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اس حملے میں 300 سے زائد افراد زخمی بھی ہو گئے ہیں جو اس وقت شہر کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

صومالیہ کی حکومت کی جانب سے اس واقعے کو قومی سانحہ قرار دیا گیا تھا۔

امریکی فوج نے رواں سال سے القاعدہ سے منسلک الشہاب کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیتے ہوئے ڈرون کارروائیاں اور دیگر کوششیں شروع کی تھیں۔

صومالیہ کی فوج کے علاوہ افریقن یونین فورسز کے 20 ہزار سے زائد اہلکار صومالیہ میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں