ہرارے: زمبابوے میں فوجی بغاوت کے بعد صدر رابرٹ موگابے نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کردیا ہے جبکہ 93 سالہ صدر پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ بہتر طریقے سے اقتدار چھوڑ دیں، تاہم موگابے اس بات پر بضد ہیں کہ وہی زمبابوے کے واحد قانونی حکمران ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں غیر ملکی خبر رساں اداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سینئر اتحادیوں کی موگابے اور ان کی اہلیہ گریس سے ہرارے کمپاؤنڈ کے شاندار بلو روف پر ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے بتایا کہ موگابے کا آئندہ سال انتخابات سے قبل رضا کارانہ طور پر استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ ایک قسم کا موقف ہے کہ سیاسی اتحادی اس بات کا اصرار کر رہے کہ صدر موگابے اپنی مدت ختم کردیں کیونکہ فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد صدر موگابے کے 37 سالہ اقتدار میں بنائے گئے سیکیورٹی، انٹیلی جنس اور تحفظ کرنے والے نیٹ ورک کا 36 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں خاتمہ ہوجائے گا۔

اپوزیشن لیڈر مورگن تسوینگری نے صحافیوں کو جاری بیان میں کہا کہ موگابے کا چلے جانا ہی عوام کے مفاد میں بہتر ہے، انہوں نے موگابے کو صدر نہ مانتے ہوئے کہا کہ آرمی موگابے کو لانا چاہتی ہے جس طرح 1980 سے آزادی کے بعد سے انہوں نے حکمرانی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ موگابے خاموشی سے اقتدار چھوڑ کر بغیر خون بہائے نائب صدر ایمرسن منگاوا کے لیے راہ ہموار کریں۔

مزید پڑھیں: زمبابوے: ٹینکوں سمیت فوج کی دارالحکومت پر چڑھائی

خیال رہے کہ صدر موگابے کی جانب سے گذشتہ ہفتے نائب صدر ایمرسن منگاوا کی برطرفی کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا تھا۔

فوج کی جانب سے موگابے کو روکنے کے اقدام کا اصل مقصد یہ ہے کہ موگابے اپنے بعد اقتدار اپنے سے 41 سالہ اہلیہ گریس کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔

مختلف افریقی ممالک کی جانب سے موگابے کو آزادی کے ہیرو کے طورپر دیکھا جاتا ہے، تاہم اس کے برخلاف مغرب میں موگابے کو معیشت کے لیے تباہ کن اقدامات اور اقتدار کے لیے تشدد برقرار رکھنے کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

اپنے سیاسی دور میں لفظی اور علامتی طور پر لڑاکا کہلانے والے موگابے پر متعدد قاتلانہ حملے بھی ہوئے، متعدد بار کھڑے ہونے کے باوجود ان کو اب ہرارے میں کوئی سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے اور موگابے کی ان کی جماعت زانو پی ایف میں بھی ان کی موجودگی واضح نہیں ہورہی۔

ذرائع نے بتایا کہ زانو پی ایف جماعت کے نوجوان رہنما گدزئی چھیپانا، جو موگابے کے حمایتی بھی ہیں، انہوں نے آرمی کی جانب سے ریاستی ٹی وی کے ہیڈآفس کی جانب مارچ کرنے کے خلاف دیئے گئے بیان پر عوام کے سامنے معافی مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: زمبابوے کے 3 لاکھ 50 ہزار ارب ڈالر ایک امریکی ڈالرکے برابر

آرمی ذرائع کا کہنا تھا کہ انہیں آرمی کی کے جی 4 بیرکس میں لے کر گئے تھے جہاں وزیر خزانہ اگناشیس چھومبو بھی سے موجود تھے۔

ذرائع کے مطابق گریس موگابے کے دو اتحادیوں کابنیٹ منسٹر جوناتھن مویو اور سیویئر کاسوکویرے کے گھر سے بنائی گئی وڈیو اس بات کو ظاہر کرتی ہے اگر طاقت کے استعمال کی ضرورت پڑی تو آرمی اس کےلیے تیار ہے۔

جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے سیاسی ذرائع اور فائلوں کے مطابق موگابے کے استعفے کے بعد منگاوا صدارتی اقتدار سنبھالیں گے جس کے بعد ان کی حکومت کو تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا۔

موگابے کے زوال کی وجہ

دوسری جانب فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر رابرٹ موگابے کے زوال کی وجہ ان کی بیوی گریس بنی ہیں، جن کے اقدامات کے باعث زمبابوے کی فوج کو آگے بڑھنے کا موقع ملا۔

اپنے شوہر سے 41 برس چھوٹی گریس موگابے کی حالیہ کچھ عرصے میں عوام میں مقبولیت بڑھی تھی ، جبکہ وہ موگابے کی جانب سے ایمرسن مانگاوا کو ہٹانے کے بعد وہ اس عہدے کے لیے مضبوط امیدوار تھی۔

فوج کی جانب سے گریس کو نائب صدر بننے سے روکنے کے لیے گذشتہ دنوں اقتدار پر حملہ کیا گیا اور موگابے کی حکمرانی کا ممکنہ اختتام ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بحران کا آغاز گریس کی وجہ سے ہوا کیونکہ وہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی تھی، جس کی وجہ سے موگابے نے جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی میں سینٹر فار افریقن ریسی اینس کے ڈائریکٹر ’شدراک گوٹو‘ سمیت مختلف لوگوں کو عہدے سے ہٹایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ وزراء فوجی افسران کا بنیادی ہدف ہیں، جس کا اعلان سرکاری ٹی وی پر قبضے کے بعد کیا گیا کہ ہم موگابے کے قریب "مجرموں" کو انصاف دلائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں