میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کا معاہدہ طے پاگیا، جس کے بعد روہنگیاز کی واپسی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق رواں سال اگست میں میانمار کی مغربی ریاست رخائن میں کشیدگی اور فوجی کریک ڈاؤن کے بعد 6 لاکھ 20 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔

امریکا کی جانب سے رواں ہفتے معاملے کو واضح طور پر ’نسل کشی‘ قرار دیا گیا تھا، جبکہ میانمار کی حکومت کو مہاجرین کے تنازع پر عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔

روہنگیا مسلمانوں کی وطن واپسی کی شرائط کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان کئی ہفتے تک کشمکش جاری رہی۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار،روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر تیار ہے،بنگلہ دیشی وزیر کا دعویٰ

تاہم جمعرات کے روز میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی اور بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی کے درمیان مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے میانمار کے دارالحکومت نیپیداو میں معاہدے پر دستخط کیے۔

میانمار کی لیبر، امیگریشن اور آبادی کی وزارت کے مستقل سیکریٹری مینٹ کیانگ نے ’اے ایف پی‘ کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’میانمار اور بنگلہ دیش نے آج مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر لیے ہیں۔‘

تاہم انہوں نے معاہدے کی مزید تفصیلات بتانے سے معذوری ظاہر کی۔

میانمار حکومت کے ترجمان نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’روہنگیاز کی واپسی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔‘

بنگلہ دیشی وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی نے میڈیا سے مختصر بات کی اور کہا کہ ’یہ ایک بنیادی قدم ہے جس کے تحت میانمار روہنگیا مسلمانوں کو واپس لے گا، جبکہ اس حوالے سے اب کام کا آغاز ہوگا۔‘

مزید پڑھیں: 50 سال کی ناانصافی، روہنگیا مسلمان کہاں جائیں؟

تاہم میانمار کتنے روہنگیا مسلمانوں کو اور کتنے عرصے میں واپس لے گا یہ اب بھی غیر واضح ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے تمام عمل پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹائے جانے کے بعد روہنگیا اقلیت کو کہاں بسایا جائے گا، جبکہ ایک ایسے ملک میں جہاں مسلم مخالف جذبات پائے جاتے ہیں ان کی حفاظت کیسے یقینی بنائی جائے گی۔

دونوں ممالک کے درمیان روہنگیا مسلمانوں سے متعلق معاہدے کی امیدیں پوپ فرانسس کے میانمار اور بنگلہ دیش کے دوروں کے بعد روشن ہوئی تھی، جس میں انہوں نے کھل کر روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں