تحریک لبیک پاکستان کے ایک ذیلی گروہ نے پنجاب حکومت سے ہونے والے معاہدے کے پورے ہونے تک لاہور کے مال روڈ پر دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کردیا، جس کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مسائل کا رخ شاہد خاقان عباسی کی حکومت سے شہباز شریف کی جانب منتقل ہوگیا۔

خیال رہے کہ پیر کے روز وفاقی حکومت نے 20 دن سے جاری فیض آباد دھرنا کو ختم کرنے کے لیے خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک پاکستان سے معاہدہ کیا تھا۔

تاہم ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کی قیادت میں تحریک لبیک پاکستان کے ذیلی گروہ نے پنجاب حکومت سے اپنے مطالبات پورے ہونے تک مال روڈ پر جاری دھرنے کو ختم کرنے سے انکار کردیا۔

وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کی سربراہی میں حکومت کی تین رکنی ٹیم نے تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے مذاکرات کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ علماء کرام کے سامنے پیش ہوں گے اور احمدیوں کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیان کی وضاحت کریں گے۔

مزید پڑھیں: وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور

بعد ازاں آصف جلالی نے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا۔

مذاکرات میں شامل نواز لیگ کے رہنماء نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے مذاکرات میں آصف جلالی سے استعفے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کے لیے کہا تھا، شاہد خاقان عباسی کی حکومت کی طرح شہباز شریف کی انتظامیہ رانا ثناءاللہ کے استعفے کا مطالبہ کبھی پورا نہیں کرے گی۔

رانا ثناءاللہ نے ڈان کو بتایا کہ انہیں ایک علماء کرام کے بورڈ کی جانب سے بلایا گیا تھا جہاں انہوں نے احمدیوں کے حوالے سے اپنے دیے گئے بیان پر وضاحت دی اور تمام علماء کرام کو مطمئن کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان سے چھ نکاتی معاہدہ کیا ہے جس میں آصف جلالی بھی شریک تھے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری اب ضامن پر ہے جبکہ آصف جلالی کو صرف اس بات کا غصہ ہے کہ انہیں خادم حسین رضوی کی جانب سے بورڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم مظاہرین کے مطالبات پورے نہیں کریں گے'۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے خواجہ سعد رفیق نے آصف جلالی کے 4 رکنی ٹیم سے ملاقات کے دوران 6 نکاتی معاہدے پر دستخط کیے تھے اس ملاقات میں حکومت کی جانب سے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر ریٹائرد مشتاق احمد شامل تھے۔

معاہدے کے مطابق توہین رسالت کے جرم کی مرتکب آسیہ بی بی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں : دھرنے سے نمٹنے کی لیے حکومت اور فوج کا اہم فیصلہ

معاہدے میں ختم نبوت کے حوالے سے شق میں تبدیلی کے ملزم کی نشاندہی کرنے اور حکومت کی جانب سے اس معاملے میں علماء کے بورڈ کو شامل کرنا شامل کیا گیا۔

معاہدے کے مطابق مسجدوں میں ایک لاؤڈ اسپیکر سے زائد کے استعمال پر سے پابندی کو بھی ہٹایا جائے گا۔

معاہدے میں حکومت کو کہا گیا کہ علماء کرام کی مشاورتی کمیٹی ختم نبوت کے معاملے پر حملہ کرنے والوں اور قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف فیصلہ کرے گی۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنماء کا کہنا تھا کہ آصف جلالی، خادم حسین رضوی کی جگہ خود کو اس معاملے کا اصل اسٹیک ہولڈر بتارہے ہیں اور اس معاہدے میں انتہائی سخط شرائط شامل کرنا چاہتے ہیں جو حکومت منظور نہیں کرسکتی۔

خیال رہے کہ مال روڈ پر جاری دھرنے کے مظاہرین کو خوش کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اور رہنماؤں جنہیں کچھ روز قبل حراست میں لیا گیا تھا، کی فوری رہائی کا حکم بھی جاری کیا گیا تھا

دھرنا جاری

تحریک لبیک پاکستان کے رہنماء آصف جلالی نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تحریک کے تین مطالبات ہیں جنہیں اب تک پورا نہیں کیا گیا جن میں پنجاب کے وزیر قانون کے متنازع بیان پر ان سے استعفیٰ لیا جائے، ملک بھر میں جاری دھرنوں میں مرنے والے افراد کا قصاص ادا کیا جائے اور راجہ ظفر الحق کی کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 20 دن میں رپورٹ کو سامنے لانے کا کہا ہے جبکہ 20 دن پہلے ہی گزر چکے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حراست میں لیے گئے دھرنے کے شرکاء کے خلاف ایف آئی آر کو واپس کرنا دوسرا مسئلہ تھا۔

دھرنا طویل ہونے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آصف جلالی کا کہنا تھا کہ تحریک کی قیادت ہی اس کا فیصلہ کرسکتی ہے کہ دھرنا کب ختم کیا جائے گا لیکن یہ صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب ہمارے مطالبات پورے کیے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا کئی ہفتے بعد ختم، کارواں روانہ

انہوں نے بتایا کہ اب تک پنجاب حکومت کی جانب سے وزیر قانون کو متنازع معاملے پر اپنا موقف سمجھانے کے لیے بھیجنے کی پیشکش کی گئی تھی تاہم ہماری تحریک اس پیشکش سے مطمئن نہیں۔

واضح رہے کہ لاہور شہر کی اہم ترین شاہراہ مال روڈ کے بند ہوجانے سے اس کے گرد و نواح میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی ہے۔

ٹریفک کی صورت حاک اتنی خراب ہے کہ سفر کرنے والے کچھ افراد کا کہنا تھا کہ آدھے کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے 2 گھنٹوں میں طے کیا۔

لاہور میں ٹریفک جام کی صورتحال لارنس روڈ، مونگ روڈ، فان روڈ، سفان والا چوک، کوپر روڈ، کشمیر روڈ، لکشمی چوک، اور اس کے گردو نواح میں دیکھی گئی۔


یہ خبر 29 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں