یکم جنوری 2017 کو سندھ یونیورسٹی جامشورو کے گرلز ہاسٹل میں خودکشی کرنے والی طالبہ نائلہ رند کی ہلاکت کا معمہ حل کرنے کے لیے بنائے گئے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ طالبہ نے ملزم کی جانب سے دھوکا دینے اور بلیک میل کیے جانے پر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔

عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) سرکٹ بینچ حیدرآباد میں جمع کرا دیا گیا۔

خیال رہے کہ نائلہ رند کی ہلاکت کا معمہ حل کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدرآباد کی جانب سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امجد علی بوہیو کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس فہیم احمد صدیقی پر مشتمل بینچ نے رواں برس 26 ستمبر کو عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کمیشن بنانے کا حکم درخواست گزار قرت فاطمہ اور دیگر کی درخواست پر کی گئی سماعت کے دوران دیا تھا۔

درخواست گزاروں نے نائلہ رند کیس کی تحقیقات کے لیے ایڈوکیٹ علی احمد پلہ کے توسط سے عدالت میں درخواست کی تھی۔

عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ ایک ایسے وقت میں مکمل کرکے جمع کرائی ہے، جب کہ سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ حیدرآباد میں نائلہ رند کیس کی سماعت 12 دسمبر کو ہونی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’شادی کا وعدہ پورا نہ ہونے پر نائلہ نے خودکشی کی‘

عدالت نے کمیشن کی رپورٹ کو تمام فریقین تک پہنچانے کی ہدایت کردی۔

جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائلہ رند نے ملزم انیس خاصخیلی کی جانب سے بلیک میل اور دھوکہ دیے جانے کے بعد خودکشی کی۔

رپورٹ میں سینیئرسپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) جامشورو کیپٹن (ر) طارق ولایت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کمیشن کی جانب سے ایس ایس پی سے نائلہ رند کیس کی تفتیش کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انھوں نے کہا کہ ’تفتیشی افسر کی جانب سے حاصل کیے گئے تمام ڈیجیٹل ثبوتوں اور مختلف لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرانے سے پتہ چلتا ہے کہ نائلہ رند نے انیس خاصخیلی کی جانب سے دھوکہ دینے اور بلیک میل کیے جانے کے بعد خودکشی کی‘۔

مزید پڑھیں: نائلہ خودکشی کیس: مہران یونیورسٹی کا کلرک گرفتار

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جامشورو تھانے کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) طاہر حسین نے بتایا کہ انہیں ایس ایس پی کی جانب سے ملزم انیس خاصخیلی اور متاثرہ لڑکی نائلہ رند کے موبائل فون سے ایک دوسرے کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیجی اور وصول کی گئی تصاویر ملیں، جنہی حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی) کی عدالت میں پیش کردیا گیا تھا۔

رپورٹ میں جج نے لکھا ہے کہ اگرچہ ملزم انیس خاصخیلی میں ابتدائی طور پر نائلہ رند کے ساتھ تصاویر کے تبادلے کرنے جیسے الزامات سے انکار کیا، تاہم بعد ازاں ثبوت پیش کیے جانے کے بعد انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ نائلہ رند کے ساتھ تصایر کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔

جج نے رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ ملزم انیس خاصخیلی نے نائلہ رند کے ساتھ تصاویر کے تبادلے کو تسلم کرتے ہوئے کہا کہ تصاویرکا تبادلہ نائلہ رند کی موت کا سبب نہیں۔

واضح رہے کہ نائلہ رند نے یکم جنوری 2017 کو سندھ یونیورسٹی کی انڈر گریجویٹس (یو جی) ہاسٹل کے کمرہ نمبر 36 میں پنکھے سے لٹک کر مبینہ طور پر خودکشی کی تھی۔

بعد ازاں سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل(آئی جی) اللہ ڈینو(اے ڈی) خواجہ نے معاملے کا نوٹس بھی لیا تھا۔

نائلہ رند قتل کیس کا مقدمہ جامشورو تھانے میں ان کے بھائی نثار احمد رند کی مدعیت میں داخل کرایا گیا تھا۔

پولیس نے مقدمے کے اندرج کے بعد ملزم انیس خاصخیلی کو بھی گرفتار کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نائلہ رند کی خودکشی پر وزیرِ مملکت انوشہ رحمان کے نام کھلا خط

انیس خاصخیلی نجی اسکول میں استاد ہے اور اس نے 2008 میں سندھ یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا تھا، انیس نے نائلہ سے شادی کا جھوٹا وعدہ کیا تھا، جو پورا نہ ہونے پر طالبہ نے خودکشی کی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انیس کے موبائل ڈیٹا کے مطابق اس کے 30 لڑکیوں کے ساتھ روابط تھے جبکہ اس کے موبائل سے نائلہ رند سمیت دیگر لڑکیوں کی قابل اعتراض تصاویر بھی ملیں۔

پولیس کے مطابق انیس اور نائلہ کے درمیان 3 ماہ قبل سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک پر رابطہ ہوا، جو بعد ازاں موبائل فون پر رابطے اور محبت میں تبدیل ہوا۔

پولیس نے اپنی ابتدائی تفتیش کے بعد بتایا تھا کہ نائلہ نے شادی کا جھوٹا وعدہ پورا نہ ہونے پر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں