عزت مآب وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی

شاید یہ خط طویل ہو، مگر اسے ضرور پڑھیے گا کیوں کہ یہ اہم ہے، اور خاص طور پر اس لیے کہ یہ مسئلہ آپ کے دل کے قریب ہے، وہی مسئلہ جس کے لیے آپ نے دو سال تک جدوجہد کی ہے۔

وزیر صاحبہ، آپ نے ضرور نائلہ رند کے بارے میں سنا ہوگا، یونیورسٹی آف سندھ جامشورو کی وہ طالبہ، جس نے مبینہ طور پر ہاسٹل میں خود کو ہلاک کر لیا تھا۔ ماسٹرز کلاس میں صفِ اول کی طالبہ نائلہ یونیورسٹی کے ماروی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 36 میں چھت کے پنکھے سے لٹکتی پائی گئی تھیں۔

اگر آپ اب بھی اس افسوسناک واقعے سے بے خبر ہیں، تو آئیں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئیں۔

ہمیں یقین ہے کہ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 (پی ای سی اے) کی منظوری کے لیے کس طرح رات دن ایک کر کے کام کیا تھا۔

"یہ قانون پاکستان کی بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔" ہمیں امید ہے کہ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے ہمارے ساتھ ایک میٹنگ میں قانون پر ہماری تنقید کو یہی کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔

پڑھیے: متنازع سائبر کرائم بل 50 ترامیم کے ساتھ سینیٹ سے منظور

کریڈٹ آپ کو جاتا ہے۔ یہ قانون پانچ ماہ قبل گذشتہ اگست میں منظور ہوا تھا، اور اس میں انٹرنیٹ پر کسی کی ٹوہ لگانے (سائبر اسٹاکنگ)، ہراساں کرنے، اور بلیک میل کرنے کے خلاف سخت مگر مبہم شقیں موجود تھیں۔

مگر لگتا ہے کہ آپ کی وزارت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس نئے قانون کے تحت ان کی ذمہ داریوں اور ان کے دائرہءِ اختیار کے بارے میں آگاہ نہیں کر پائی ہے۔ ایک قانون، جو "پاکستان کی بیٹیوں کے تحفظ" کے لیے بنایا گیا تھا، وہ پاکستان کی ایک قیمتی بیٹی نائلہ رند کی جان بچانے میں ناکام رہا۔

نائلہ کو بلیک میل کیا گیا تھا

نائلہ کی خودکشی کی تہہ تک پہنچتے ہیں۔

ابتدائی تحقیقات اور ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق نائلہ ایک شخص انیس خاصخیلی کے ہاتھوں سائبر بلیک میلنگ کا شکار تھی۔

پولیس کے مطابق جامشورو کے ایک نجی اسکول کا یہ استاد نائلہ کو تین ماہ سے اس کی تصاویر و ویڈیوز سے بلیک میل کر رہا تھا۔

جب بلیک میلنگ حد سے گزر گئی تو اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

مزید پڑھیے: ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے متاثرین کے لیے 7 رہنما نکات

کیا یہی وہ صورتحال نہیں تھی جس سے نمٹنے کے لیے آپ نے یہ نیا قانون بنوایا تھا؟ اگر ہاں تو پھر پولیس سے لے کر وفاقی ادارہءِ برائے تحقیقات (ایف آئی اے) سمیت تمام ادارے کیوں اس صورتحال سے نمٹنے کے بارے میں انجان دکھائی دے رہے ہیں؟

حکام کی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت پولیس کی جانب سے کاٹی گئی ایف آئی آر ہے۔

وزیر صاحبہ، ایف آئی آر میں ملزم کے خلاف انسدادِ الیکٹرانک کرائمز آرڈیننس 2009 کی شق 9 اور 13 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

آپ کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ یہ آرڈیننس مشرف دور میں جاری کیا گیا تھا، اور یہ وہی آرڈیننس ہے جس کی آپ شدید مخالف تھیں۔

کیا یہ دلچسپ نہیں کہ ایف آئی آر ایسے آرڈیننس کے تحت کاٹی گئی ہے جو آٹھ سال قبل اپنی مدت تمام کر چکا ہے؟

یہ ایف آئی آر ریاست کی ناکامیوں کا ثبوت ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ اس قانون کے نافذ کرنے سے پہلے انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے، اور انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے اخلاقی استعمال کے بارے میں آگاہی اور تعلیم ضروری تھی، کیوں کہ اس کے بغیر یہ قانون کسی کام کا نہیں۔

پڑھیے: پورن کے ذریعے انتقام: متاثرین کہاں جائیں؟

وزارت کا کام صرف یہ نہیں کہ قانون پاس کروا دیا جائے۔ مسائل سے بھرپور قانون کو منظور کروانے کی جلدی میں وزارت انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے، اور موجودہ نظام کے تحت اس قانون کے اطلاق میں موجود دشواریوں جیسے زمینی حقائق کو نظر انداز کر بیٹھی ہے۔

انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے، اسٹاک کرنے اور کسی کو پریشان کرنے جیسے مسائل کے انسداد کے لیے بنائے گئے قانون کو ایک ایسے وفاقی ادارے، جس کے ریجنل دفاتر صرف راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، اور پشاور میں ہیں، کے سپرد کر کے وزارت نائلہ رند جیسی لڑکیوں تک پہنچنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

آپ اچھی طرح جانتی ہیں وزیر صاحبہ کہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کے مقدمات پولیس اسٹیشنز کے دائرہءِ اختیار میں آتے ہیں۔

آپ کی وزارت بنیادی طور پر اس مسئلے کی حدود اور فطرت سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ جب ایسا کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے، تو کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا کیا جائے۔ مقامی پولیس بھی اس قانون کو سمجھنے میں ناکام رہی۔

جیسا کہ آپ اب تک جان ہی چکی ہوں گی، کہ جب دھمکیاں اور بلیک میلنگ نائلہ کی برداشت سے باہر ہوگئیں تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر مجبور ہوئی۔

ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے خواتین مدد طلب کر سکیں: صنفِ مخالف کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں اور انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے سے جذباتی طور پر کس طرح نمٹنا ہے، اس بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔

جانیے: سائبر کرائم کے حوالے سے آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے

ہم بطور معاشرہ انٹرنیٹ پر ہراساں ہونے سے جنم لینے والے ذہنی دباؤ کو سنجیدہ مسئلہ سمجھنے میں ناکام کیوں ہیں؟

یہ نکتہ اٹھایا گیا ہے کہ سندھ یونیورسٹی میں طلبا کے لیے ماہرینِ نفسیات کی خدمات موجود نہیں ہیں۔ ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں نائلہ مسلسل بلیک میلنگ سے ہونے والے نفسیاتی صدمے سے نجات پانے کے لیے جا سکتی۔

وزیر صاحبہ، اس خودکشی کا بوجھ حکام اور ریاست کے ضمیر پر بھاری ہونا چاہیے۔

ریاست پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ جیسے جلد بازی میں تیار کیے گئے قوانین کو جلد بازی میں منظور بھی کروانا چاہتی ہے، مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کے نفاذ سے متعلق تربیت دینے کی جانب کسی کی توجہ نہیں۔

تو اگر یہ قوانین عام لوگوں کی مدد نہیں کر سکتے، تو بنائے کس کے لیے جا رہے ہیں؟

اگر یہ قوانین نائلہ جیسی لڑکیوں کی امداد کرنے میں ناکام ہیں تو پھر ان کا فائدہ، اور انہیں تیار و منظور کروانے پر شاباشی کس بات کی؟

ہمارا آپ سے اور آپ کی وزارت سے مطالبہ ہے کہ:

  • پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 سے متعلق رولز کو جلد از جلد عوام میں لایا جائے، اور رولز کی تیاری کے لیے تمام متعلقہ حلقوں اور ماہرین سے مشورے لیے جائیں۔

  • پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے تمام متعلقہ اداروں کی اس حوالے سے تربیت کی جائے کہ ایسے مسائل کی شکار خواتین سے کس طرح پیش آنا ہے اور ان کی مدد کس طرح کرنی ہے۔

  • ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ اور پولیس کو اس طرح کی شکایات سے نمٹنے، اور ان کے فوری حل کے لیے بااختیار بنایا جائے، اور اس میں زیادہ وسائل بروئے کار لائے جائیں (ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ہیلپ لائن پر موصول ہونے والی آدھی سے زیادہ شکایات پر ایف آئی اے کا ایکشن درکار ہوتا ہے۔)

  • ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں مزید خواتین تعینات کی جائیں، جو انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کی شکایات سے نمٹنا جانتی ہوں، تاکہ ان مسائل کی شکار خواتین جب قانون نافذ کرنے والے اداروں تک جائیں تو انہیں وہاں موجود مرد افسروں کی جانب سے مزید پریشان نہ کیا جائے۔

  • پولیس اسٹیشنز اور سائبر کرائم ونگ میں خاتون ماہرینِ نفسیات تعینات کی جائیں، جو ہراساں کیے جانے اور بلیک میلنگ کی شکار خواتین کے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس کا علاج کر سکیں۔

وزیر صاحبہ، جب تک ریاست کو یہ سمجھ آئے کہ انہیں اس مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے اور اپنا کام کیسے کرنا ہے، تب تک کے لیے ہم انٹرنیٹ پر ہراسگی اور بلیک میلنگ کے شکار افراد کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ ہماری سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن 39393-0800 پر کال کر سکتے ہیں۔

بلیک میلنگ کے شکار افراد کو گھٹ گھٹ کر نہیں جینا چاہیے۔

ہم ایک چھوٹی سی ٹیم ہیں، مگر ہم مدد کرنے کے لیے، بات سننے کے لیے اور آپ کے ساتھ مل کر مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیشہ موجود ہیں۔

آپ کی مخلص

نگہت داد اور شمائلہ خان

سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن | ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن


نگہت داد ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں۔

شمائلہ خان تعلیم کے اعتبار سے وکیل، اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کی سربراہ ہیں۔


کیا آپ بھی انٹرنیٹ پر بلیک میلنگ کا شکار ہیں، یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اس صورتحال کا شکار ہے؟ ہمیں اپنی کہانی اسی فارمیٹ میں [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Asad Jarwar Jan 08, 2017 01:16am
آپ نے غلط بياني كی ہے محترمہ نگھت داد صاحبہ.. نائلہ نے خودكشی نهيں كی نائلہ كا قتل ہوا ہے جسے خودكشی كا رنگ ديا جا رہا ہے ،سندھ میں اس واقعے كی عدالتی جانچ كا مطالبه كيا جا رها هے. نائلہ كے شرٹ كے بٹن كھلے هوۓ تهے جسم پر تشدد كے نشان تھے . اک سوال كا جواب چاهيے كيا كوئی آدمی خوشی سے ميك اپ كركے خودكشی كرسكتا هے ؟ نائلا رند نے ميك اپ كيا هوا تھا، يونيورسٹی انتظاميه نے نائلا كو چھٹيوں كے دنوں میں فون كر كے كها كے آپ اپنی تھيسز دے جائيں اس كی كيا وجہ ہوسكتی ہے ؟ جب يونيورسٹی بند تھی تو نائلا كو انتظامیہ نے كيوں بلايا ؟ سندھ كی عوام ،طلباء ،وكيل ،اساتذه مطالبہ كرتے هيں كے اس واقعے كی عدالتی تحقيقات كرائی جاۓ.
RIZ Jan 08, 2017 09:58am
we have to raise voice,, and create awareness,,, protect our sisters and daughters,
رفاقت نعمان Jan 08, 2017 11:58am
اصل مسئلہ تصاویر اور ویڈیوز کا نہیں، اب تک کی تفتیش کے مطابق لڑکی کا ملزم کے ساتھ افئیر تھا۔ اور چونکہ شادی کا وعدہ کیا گیا تھاملزم کی طرف سے اِس لئے بہت حد تک ممکن ہے کہ لڑکے اور لڑکی کی تنہائی کی تصاویر اور ویڈیوز دراصل وجہ بنی ہے لڑکی کی خود کُشی کی، ورنہ معمولی تصاویر اور ویڈیوز پر کون بیوقوف خود کُشی کر سکتی ہے۔