اسلام آباد: پاکستان کی سیکیورٹی پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں امریکا کی جانب سے اسلام آباد پر لگائے جانے والے الزامات زیر بحث آئے اور قومی نمائندوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ ہفتے ایک اور اجلاس منعقد کیا جائے, جس میں ملٹری قیادت اور دفاعی اداروں کو بھی شامل کیا جائے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹا اور بے بنیاد قرار دیا گیا۔

خیال رہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’امریکا نے پاکستان کو 15 سال میں 33 ارب ڈالر سے زائد امداد دے کر بے وقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا جبکہ وہ ہمارے رہنماؤں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے اور افغانستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے میں معمولی مدد ملتی ہے لیکن اب ایسا نہیں چلے گا'۔

مزید پڑھیں: ’ماضی ہمیں امریکا پر اعتماد میں احتیاط سکھاتا ہے‘

پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کا ایک اور سیشن آئندہ ہفتے بلایا جائے جس میں ملٹری قیادت کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔

اپوزیشن لیڈر خورشید کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کے حکام کو بھی اگلے اجلاس میں دعوت دی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے سیشن میں میں فوجی اور معاشی صورتحال پر بحث کی جائے، ہم جذبات میں فیصلے نہیں کرسکتے۔

خیال رہے کہ پارلیماننی کمیٹی کا اگلا اجلاس 11 جنوری کو متوقع ہے۔

قبل ازیں اجلاس کے آغاز میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔

ایاز صادق کے بیان کے بعد وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور وزیر دفاع خرم دستگیر نے کمیٹی کو گزشتہ ہفتے سے آنے والے ٹرمپ کے بیانات کے حوالے سے بریفنگ دی۔

وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔

تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی جن میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، پیپلز پارٹی کی جانب سے شیری رحمٰن اور سابق وزیر قانون زاہد حامد بھی شامل ہیں۔

ہمیں بڑی تصویر کی طرف دیکھنا ہوگا

اجلاس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماء شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن پاکستان پر دباؤ بڑھا رہا ہے جس کے اثرات پورے خطے میں آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مشرق وشطیٰ کے امور اور امریکا اور ایران کے تعلقات کے معاملے پر بھی غور کرنا ہوگا، ہمیں ان معاملات کو ایک بڑی تصویر میں دیکھنا ہوگا جس کے بعد ہمارا رد عمل سامنے آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ واشنگٹن مزید کیا کارروائی کر رہا ہے جس کے بعد پاکستان کا رد عمل اس کے حساب سے ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے پاکستان کو 15 سال تک امداد دے کر بیوقوفی کی، ڈونلڈ ٹرمپ

قوم کو متحد ہونے کا کہتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مستقبل کا فیصلہ معاشی امداد پر نہیں کر سکتے۔

امریکا کو پاکستان کے مزید 9 ارب روپے دینے باقی ہیں

وزیر دفاع خرم دستگیر نے نشاندہی کی کہ 16 سال تک پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے بعد امریکا کی جانب سے پاکستان کو 23 ارب روپے دینے تھے جس میں سے 14 ارب روپے امریکا دے چکا ہے جبکہ اب بھی 9 ارب روپے دینے باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں واشنگٹن کے سفیروں سے ملاقات میں ایک واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے جس کے بعد یکم جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان سامنے آیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف امریکی حکام کی جانب سے ملاقات میں کسی خطرے کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:

خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے شراکت داری اور بھروسے کے قیام پر بات کی تھی جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان میں ہمیں دھمکی دی گئی ہے۔

خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ ضروری ہے کہ اس وقت معاملے پر نظر ثانی کی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں