سورج یا چاند گرہن کا معاملہ جدید دور کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے، اور اس حوالے سے کئی داستانیں اور دیو مالائی قصے سننے کو ملتے ہیں، کہتے ہیں کہ قدیم چین اور آئس لینڈ کی تہذیب میں جیوتشی سورج اور چاند گرہن کی درست پیش گوئی کرنے سے قاصر رہے، جس وجہ سے انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا، 2 اگست 1133 کے سورج گرہن کے بعد شاہ ہنری انتقال کر گئے، جس سے ان افواہوں کو تقویت ملی کہ گرہن شہنشاہ وقت کی صحت اور مملکتی امورپر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

پہلی دفعہ 585 قبل مسیح میں ایک مصری فلاسفر تھیلز آف مائلیٹس نے گرہن کی درست پیش گوئی کی تھی، جس کا تعلق آیونہ کے علاقے سے تھا، جو اس دور میں روشن خیال لوگوں کا مرکز کہلاتا تھا، اگرچہ قدیم بابل کے رہنے والے بھی گرہن کی درست پیش گوئی کرلیا کرتے تھے، مگرانھیں یہ علم نہیں تھا کہ گرہن کے رونما ہونے کی اصل وجہ زمین کا سورج کی روشنی روک لینا ہے۔

اس حوالے سے تبدیلی کا آغاز تقریبا 2600 سال پہلے اس تصور کے ساتھ ہوا کہ قدرت اصول و ضوابط کے مطابق عمل کرتی ہے، اور زمین پر رونما ہونے والی آفات کا سورج یا چاند گرہن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، تاریخی حوالوں کے مطابق مصری حساب دان اور ماہر فلکیات ارسٹارچس وہ پہلا شخص تھا جس نے چاند گرہن کے دوران زمین کے بننے والے سائے سے اس کے سائز کا مشاہدہ کیا، حاصل شدہ ڈیٹا سے اس نے یہ نتائج اخذ کیے کہ سورج،زمین سے سائز میں بہت بڑا ہے، اور ہمارے نظام شمسی کا مرکز زمین نہیں، بلکہ وہ ایک اور دوسرے سیارے یعنی سورج کے گرد گردش کرتے ہیں۔

آگے چل کہ 1605 میں مشہور ماہر کونیات جوہنس کیپلر نے سورج گرہن کے سائنسی طریقہ کار پر وضاحت کی، اس کے تقریبا 100 سال بعد ایڈمنڈ ہیلی(جس کے نام پر دمدار ستارے ہیلی کا نام رکھا گیا ہے) نے 3 مئی 1715 کو رونما ہونے والے گرہن کے او قات اور ان علاقوں کے بارے میں درست پیش گوئی کی جہاں اسے با آسانی دیکھا جاسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سال 2017 کا آخری چاند گرہن

تحقیق و جستجو اور کائنات کے سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھانے کا سفر 18ویں صدی میں اس وقت تیز تر ہوا، جب 15 مئی 1836 کو سورج گرہن کے دوران مشاہدات کرتے ہوئے، انگریز ماہر فلکیات فرانسز بیلے نے "بیلے بیڈز" دریافت کیں، جو دراصل روشنی کی وہ شعائیں ہیں، جو مکمل سورج گرہن کے وقت کچھ خاص مقامات سے بہت مختصر وقت کے لیے خارج ہوتی ہیں، جب کہ باقی سولر ڈسک کو چاند پوری طرح ڈھانپ لیتا ہے۔

عالمی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ اہمیت 29 مئی 1919 کے سورج گرہن کو حاصل ہے، جب برٹش حساب دان سر آرتھر ایڈنگٹن نے گرہن کے دوران سورج کے نزدیک چند ستاروں کی تصاویر لے کر البرٹ آئن اسٹائن کے بنیادی نظریہ اضافیت کی توثیق و تصدیق کی، جس کے مطابق کشش ثقل کے باعث روشنی کی شعاؤں کے راستوں میں خم آجاتے ہیں۔

دستیاب ریکارڈ کے مطابق تاریخ کا طویل ترین سورج گرہن 30 جون 1973 کو رونما ہوا جس کا دورانیہ 9 منٹ 4 سیکنڈ تھا۔

2018 اس حوالے سے قابل ذکر ہے اس سال ایک دفعہ بھی مکمل سورج گرہن نہیں ہوگا، اور 21 اگست 2017 کے تاریخی گرہن کے بعد جو طویل عرصے بعد امریکہ اور پورے یورپ میں مشاہدہ کیا گیا تھا، اب 2 جولائی 2019 کو مکمل سورج گرہن کا مشاہدہ کیا جا سکے گا۔

رواں برس 15 فروری، 13 جولائی اور 11 اگست کو جزوی سورج گرہن دکھائی دیں گے، جن کا مشاہدہ آسٹریلیا، انٹارکٹیکا، کینیڈا، شمال مشرقی ایشیا، شمالی یورپ، گرین لینڈ اور روس کے شمالی علاقوں میں کیا جا سکے گا، ان میں سے 11 اگست 2018 کا گرہن اس حوالے سے قابل ذکر ہے کہ یہ دنیا کے مختلف خطوں میں بہ آسانی مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

سورج کی طرح چاند گرہن بھی صدیوں سے انسانی تجسس کو اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے، قدیم زمانہ میں افریقا کے ٹوگو اور بینین قبائل میں یہ تصور عام تھا کہ سورج اور چاند دراصل 2 دیوتا ہیں، جن کے درمیان اکثر و بیشتر خونی جنگیں ہوتی رہتی ہیں، جس کے باعث بعض اوقات چاند کا رنگ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔

ایشیا کے جنوب مغربی علاقے میسو پوٹیما میں چاند گرہن کو نہ صرف بادشاہ وقت کے لیے منحوس سمجھا جاتا تھا، بلکہ اس کے تدارک کے لیے گرہن سے چند دن پہلے کسی عام شہری کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا، جب کہ شاہ خود اس دوران عام فرد کی زندگی گزارتا، اس تمام قصے کا مایوس کن پہلو یہ ہے کہ گرہن کے ختم ہوتے ہی بادشاہ اپنا تخت سنبھال لیتا اور عارضی شاہ کو زہر دے کر مار دیا جاتا تھا، تاکہ گرہن کی نہوست بھی اس کے ساتھ ختم ہوجائے۔

چاند گرہن کے متعلق ایک کہانی کولمبس کی امریکہ دریافت کرنے کی مہمات میں بھی بیان کی گئی ہے، جب اس سلسلے کی چوتھی مہم کے دوران گرہن ان کی جان بچانے کا سبب بنا، جس کی پیش گوئی کے بارے میں وہ پہلے سے علم رکھتے تھے۔

تاریخی حوالوں کے مطابق ارسطو وہ پہلا شخص تھا، جس نے چاند گرہن کے دوران مشاہدات کرتے ہوئے زمین کا دائروی مدار دریافت کیا، کیونکہ چاند گرہن کے دوران زمین پر چاہے کسی بھی مقام سے جائزہ لیا جائے، اس کا سایہ چاند کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔

کئی صدیوں کے تعطل کے بعد ارسٹارچس نے گرہن کے دوران زمین کا سورج اور چاند سے متعلقہ فاصلہ ناپنے کی کوشش کی، اس کے بعد ہی چاند گرہن کی سائنسی توجہہ پیش کی گئی کہ ایک مکمل گرہن اس وقت رونما ہوتا ہے، جب زمین اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے کچھ وقت کے لیے سورج اور چاند کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، جس وجہ سے زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے، جسے فلکیاتی اصطلاح میں 'امبرا 'کہا جاتا ہے، اور اسی وجہ سے ہی گرہن کے دوران بعض اوقات چاند سرخی مائل یا خونی دکھائی دیتا ہے۔

زمانہ قدیم سے افریقہ کے ہوپا اور دیگر قبائل یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ چاند دراصل ایک دیوتا ہے، جس کی 20 بیویاں، سیکڑوں بچے اور لا تعداد مال مویشی ہیں، اس لیے آسمانی بلائیں اس کے در پر رہتی ہیں اور جب کبھی وہ جنگ و جدل میں زخمی ہو جائے تو یہ خونی مائل دکھائی دیتا ہے۔

در حقیقت افریقی قبائل کے قدیم عقائد ہوں، موجودہ دور میں کرسچین کمیونٹی کی بلڈ مون پروفیسی، یا پھر سائنس فکشن ناولز سے عام ہوجانے والی اصطلاح 'بلڈ مون' سب محض داستان کے سوا اور کچھ نہیں۔

سائنسی تحقیقات سے اب تصدیق ہوچکی ہے کہ گرہن کے دوران سورج کی روشنی زمین کے ایٹموسفیئر سے ٹکراؤ کے بعد اپنا رخ موڑ لیتی ہے جس کے باعث چاند تانبے کی طرح دہکتا ہوا نظر آتا ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2018 کا پہلا چاند گرہن

2018 اس حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا آغاز ہی ایک فلکیاتی مظہر سے ہوا، جب یکم جنوری کو دنیا بھر سے شائقین نے 3 سپر مون سیریز کے دوسرے چاند کا مشاہدہ کیا، ایک سپر مون اس وقت رونما ہوتا ہے جب چاند، سورج کی مخالف سمت زمین کے ساتھ ایک ہی سیدھ میں آجاتا ہے، جسے ماہرین فلکیات نے"پیریگی سیزائگ" یا سپر مون کا نام دیا ہے۔

واضح رہے کہ پیریگی اس مقام کو کہتے ہیں جب چاند اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے زمین سے کم ترین فاصلے پر آجاتا ہے، اور اس باعث معمول کے سائز سے 90 گنا زیادہ بڑا اور روشن نظر آتا ہے، جس کی بنیادی وجہ چاند کا قدرے بیضوی مدار ہے، چون کہ یہ ایک مشکل نام ہے اس لیے میڈیا اور عوامی حلقوں میں لفظ سپرمو ن نے زیادہ شہرت پائی، جس کا پہلی دفعہ استعمال ماہر فلکیات'رچرڈ نال' نے کیا تھا۔

معمول کا پر پورا چاند زمین سے 238،900 میل کے فاصلے پر ہوتا ہے، 14 نومبر 2016 کی رات نظر آنے والا چاند تاریخی اہمیت کا حامل تھا، کیوں کہ یہ معمول کے سائز سے 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن تھا، جو اس سے پہلے 1948 میں دیکھا گیا تھا، اور اب 2034 میں دوبارہ دکھائی دیگا۔

31 جنوری 2018 کو نظر آنے والا سپر مون بہت اہمیت رکھتا ہے، چونکہ یہ جنوری میں نظر آنے والا دوسرا مکمل چاند ہوگا، اس لیے اسے بلیو مون بھی کہا جارہا ہے، مگر یہ نیلگوں مائل ہونے کے بجائے گرہن کے باعث دہکتے تانبے کی طرح سرخ دکھائی دیگا، اس لیے ماہرین فلکیات نے اسے'سپر بلیو بلڈ مون' کا نام دیا ہے، یعنی ایک رات میں 3 عوامل دیکھنے کو ملیں گے، جو تقریبا 150 سال کے بعد اکھٹے نظر آتے ہیں، 31 جنوری کا چاند گرہن نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، وسطی و مشرقی ایشیا میں بہت واضح دیکھا جا سکے گا، جبکہ برطانیہ اور امریکہ کے رہائشی اس تاریخی گرہن کے نظارے سے محروم رہیں گے۔

اس برس 27 جولائی کو بھی چاند گرہن ہوگا، جس کا مشاہدہ دنیا کے مختلف خطوں میں کیا جا ئے گا،اس کے علاوہ رواں برس فروری کا مہینہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ جنوری اور مارچ میں 2 مکمل چاند نظر آنے کے باعث پورے فروری میں ایک دفعہ بھی مکمل چاند دکھائی نہیں دیگا، جسے ' بلیک مون' کہا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ کوئی باقاعدہ فلکیاتی اصطلاح نہیں ہے، مگر پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا پر کثرت استعمال کے باعث یہ اصطلاح اب عام ہو گئی ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلیک مون ہر 20 برس بعد رونما ہوتا ہے، سورج اور چاند صدیوں سے انسانی توجہ کا مرکز رہے ہیں، آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ہر طرح کی معلومات کا خزانہ صرف چند کلکس پر دستیاب ہے لیکن اس کے باوجود افریقہ و جنوبی ایشیا، خصو صا پاکستان اور انڈیا میں اب بھی چاند اور سورج گرہن کو منہوس سمجھا جاتا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں ضعیف الاعتقادی کے باعث حاملہ خواتین اور بچوں کی پیدائشی امراض یا معذوری، شادی بیاہ کے معاملات یہاں تک کے میاں بیوی کی ناچاقی اور طلاق تک کو عموما گرہن سے جوڑا جاتا ہے، اور نسل در نسل قصے کہانیاں منتقل ہونے کی وجہ سے یہ اب کٹر عقائد کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

ان تہمات کا سد باب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سائنسی علم کو عام کیا جائے کہ چاند اور سورج ہی نہیں باقی تمام اجرام فلکی بھی آفاقی قدرتی قوانین کے طابع ہیں، جن سے انحراف کسی صورت ممکن نہیں۔


صادقہ خان بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں اور اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں۔ سائنس اور سائنس فکشن ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

junaid Jan 08, 2018 11:46pm
nice info. So, if we are observing more eclipses, that means, that space is shrinking, as distance between moon and earth and moon reducing that's why, may be coming so occasional. I may be wrong but that's my opinion.
Hanif Jan 09, 2018 12:09am
Detailed One
Mumtaz Khan Jan 09, 2018 02:08pm
Perfect article. I appreciate your writing skill.
Syed Muneeb Ali Jan 09, 2018 07:00pm
@junaid This is wrong assumption though.