لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) نے بچوں کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے اور فروخت کی روک تھام کے لیے ‘سائبر پٹرول ونگ یا سائبر نگرانی ونگ’ بنانے کی تجویز پیش کردی۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے گزشتہ دنوں بچوں کی قابل اعتراض ویڈیوز بنانے کے بعد آن لائن فروخت کے الزام میں 3 مشتبہ شخص کو حراست میں لیا تھا۔

یہ پڑھیں: سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہئے

تاہم ایف آئی اے کی جانب سے مذکورہ تجویز کے تحت تشکیل پائے والے ونگ کے ذریعے ملک بھر میں شرمناک مواد کی ترسیل سے جڑے مالی مقاصد کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ملزمان کے خلاف موثر اور بروقت کارروائی ہو سکے گی۔

یاد رہے کہ ایف آئی اے میں قابل اعتراض مواد کی انٹرنیٹ پر ترسیل و فروخت کی روک تھام کے لیے باقاعدہ کوئی ٹیم موجود نہیں اور ایف آئی اے محض عوامی شکایت یا اطلاع پر مشتبہ افراد کے خلاف حرکت میں آتا ہیں۔

پنجاب ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان انور نے ڈان کو بتایا کہ سائبر کرائم ونگ کے بعد سے ملک بھر میں اب تک تین چائلڈ پورنوگرافی (بچوں کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے) کے کیسز منظر پر آئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ‘چائلڈ پورنوگرافی کے الزام میں گرفتار تینوں ملزماں کو ملک یا بیرون ملک سے ملنے والی اطلاع پر حراست میں لیا جبکہ ملزمان کی نشاندہی کے لیے ایف آئی اے کے پاس خود سے کوئی ایسا موثر اور مربوط میکینیزم موجود نہیں جس کے تحت اس شرمناک جرم میں مبتلا افراد کے خلاف بروقت کریک ڈاؤن کیا جا سکے’۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ وسائل کی کمی کا شکار

ان کا کہنا تھا کہ ‘سائبر نگرانی ونگ کے قیام کے لیے وفاقی حکومت کو تجویز پیش کی ہے جس میں چائلڈ پورنوگرافی کے خلاف ایف آئی اے اہلکاروں پر مشتمل مخص ٹیم ہوگی جنہیں جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا’۔

ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ ‘ایف آئی اے کے اہلکار ‘آن لائن نگرانی’ میں اس امید کے ساتھ مصروف رہتے ہیں کہ شاید کسی مشتبہ شخص کی نشاندہی ہو سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایف آئی اے کو ہمیشہ ملزم کی نشاندہی کے لیے لوگوں کی شکایت کا انتظار رہتا ہے’۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ ‘قابل اعتراض ویڈیو بنانے اور آن لائن فروخت کے الزام میں تین ملزمان کو سرگودھا، فتح جنگ اور جھنگ سے گرفتار کیا گیا’۔

تیمور مقصود کو جھنگ سے گرفتار کیا جس پر الزام ہے کہ اس نے چائلڈ پورنوگرافی مواد کی آن لائن ترسیل کی، سعادت امین کو سرگودھا سے متنازع مواد کو آن لائن فروخت کے الزام میں جبکہ نبیل کو فتح جنگ سے بچوں کی قابل اعتراض حالات میں ویڈیو اور تصویریں بنانے پر گرفتار کیا گیا۔

مزید پڑھیں: آن لائن سائبر کرائم کے قوانین کی عدم موجودگی خواتین کے لیے خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ پہلے دو کیسز میں ناروجین اور کینڈین اتھارٹی نے ایف آئی اے کو مطلع کیا جبکہ تیسرے کیس میں متاثرہ بچے کے اہل خانہ نے شکایت درج کرائی تھی۔

ملزمان کے حوالے سے انہوں ںے بتایا کہ سرگودھا سے گرفتار امین کے خلاف آئندہ ماہ تک عدالتی فیصلہ ممکن ہے جبکہ فتح جنگ سے گرفتار نبیل کے خلاف شواہد اکٹھے کیے جارہے ہیں۔

تیسرے ملزم مقصود کے بارے میں ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ ‘ملزم پولیس کے پاس جسمانی ریمانڈ پر ہے تاہم ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے بینک کو ملزم کے اکاؤنٹس کی تفصیلات کے لیے خط لکھ دیا ہے’۔

ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کو مقتول زینب یا دیگر کسی بچی کی قابل اعتراض ویڈیو آن لائن نہیں ملا۔

سائبر کرائم قانون کے مطابق ‘بچوں کی قابل اعتراض ویڈیو بنانے والوں کو 7 برس تک قید اور 50 لاکھ روپے جرمانہ اور دونوں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہے’۔


یہ خبر یکم فروری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں