وارث شاہ نے ہیر رانجھا کی عشقیہ داستان کو اپنی نظم کا پیرہن پہنا کر ان دو کرداروں کو لوک داستانوں میں امر کردیا۔

بچپن سے جوانی تک ہیر رانجھے کا نام سنتے آئے ہیں، کبھی نصابی کتابوں کے لفظوں میں تو کبھی فلمی دنیا کے بڑے پردوں پر ان دو لوک کرداروں سے ملے اور انہیں خوب پرکھا، اور ایک جڑاؤ پیدا ہوگیا۔ یوں ایک دن بیٹھے بٹھائے ان کی آخری آرام گاہوں پر جانے کا ارادہ کرلیا اور بس نکل پڑا ہیر کے مزار کا راستہ ناپنے۔

ہم جھنگ شہر کے اس قبرستان کی طرف گامزن تھے جہاں ہیر کی آخری آرام گاہ موجود ہے، ہم قبرستان کو جاتی ایک تنگ سی گلی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آگے آگے پولیس وین جا رہی ہے، جس میں پولیس اہلکار اپنی سرکاری بندوقیں تانے بیٹھے تھے۔ میں اس شش و پنج میں پڑگیا کہ آخر قبرستان کی طرف پولیس کیوں جارہی ہے؟ میرے ہمسفر نے کہا کہ شاید کوئی عاشق جوڑا ہیر کے مزار پر منت مانگنے آیا ہو اور پولیس اس کی تلاش میں جارہی ہو۔ حیرت ہوئی اور پوچھا کہ کیا یہاں اب بھی عاشق جوڑے آتے ہیں۔ جواب ملا کہ مائی ہیر کے مزار پر محبت کرنے والے اپنی گمشدہ محبت اور محبوباؤں کے ملنے کی دعا کرنے اب بھی یہاں آتے ہیں۔

مائی ہیر کا مزار—تصویر عطا محمد تبسم
مائی ہیر کا مزار—تصویر عطا محمد تبسم

لوک ورثہ میوزیم میں رکھے گئے ہیر رانجھا کے خیالی مجسمے
لوک ورثہ میوزیم میں رکھے گئے ہیر رانجھا کے خیالی مجسمے

قبرستان کی حدود شروع ہوتے ہی ایک احاطے میں مائی ہیر کا مزار نظر آیا۔ قبرستان شروع ہونے سے پہلے ایک ہیر کے نام سے منسوب اسٹیڈیم آتا ہے، جس کی بوسیدہ دیواریں ہی اس کی زبوں حالی کی داستان سنا رہی تھی۔ سامنے احاطے میں ایک اونچی جگہ پر ہیر کا مزار موجود تھا۔ چند سیڑھیاں چڑھ کر ایک صحن اور سامنے نیلے اور سفید ٹائیل کے ساتھ ایک سادہ سی عمارت نظر آرہی تھی اور اس کی پیشانی پر لگی تختی پر لکھا تھا، ’دربار عاشق صادق، مائی ہیر و میاں رانجھا 876 ھ وصال

ماہی ماہی کوکدی میں آپے رانجھن ہوئی

رانجھن رانجھن ہر کوئی آکھے ہیر نہ آکھے کوئی

جھنگ میں مائی ہیر کا مزار ہے، نواح میں شاہ جیوانہ کا دربار ہے۔ مزار کے سامنے ہارمونییم لیے دو سازندے ہیر گا رہے تھے۔

میں نے پوچھا کہ کیا یہاں بہت لوگ آتے ہیں۔ تو جواب ملا کہ بس جی روزانہ دو، چار تو آہی جاتے ہیں، جیسے آپ آگئے، اور انہی آنے والوں کی وجہ سے کچھ آمدنی ہوجاتی ہے اور بس جی گزارا ہوجاتا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے ایک بار پھر ہیر کے بول فضا میں گھولنا شروع کردیے۔

مزار کی پیشانی پر لگی تختی—تصویر عطا محمد تبسم
مزار کی پیشانی پر لگی تختی—تصویر عطا محمد تبسم

داستانِ عشق کو امر کرنے والی الہڑ دوشیزہ ہیر کو اب زمانے نے ’مائی ہیر‘ بنا دیا ہے۔ قبرستان ویسا ہی ہے، جیسے دیگر قبرستان ہوتے ہیں، بے ترتیب، کچی پکی قبریں، کہیں لوح مزار تو کہیں صرف نشانی کا ایک پتھر۔ یہاں کوئی عاشق یا معشوقہ تو نظر نہیں آئے البتہ پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر تھا جو مزار پر فاتحہ پڑھنے آیا تھے۔

مجھے 20 فٹ بلند اور 16 فٹ چوڑائی اور لمبائی والی ایک چوکور عمارت میں ہیر کی داستان جیسی کوئی دلکشی نظر نہیں آئی۔ نیلی اور سفید ٹائلوں سے مزین یہ عمارت ایک ویرانی کی تصویر دکھائی دے رہی تھی۔

سیڑھیاں چڑھ کر اندر پہنچے تو مزار کے اندر ایک قبر پر چادریں چڑھی ہوئی تھی، چراغ طاق میں رکھے تھے جو سرِ شام جلتے ہوں گے یا منت مانگنے والے روشن کرتے ہوں گے۔ میں نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے اور پھر باہر نکل آیا۔

میرے ساتھی نے بتایا اس مزار کی چھت نہیں ہے، مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی اور یقین نہیں آیا، لہٰذا دعوے کی تصدیق کے لیے میں دوبارہ مزار میں داخل ہوا۔ چھت میں ایک گول سوراخ تھا جس سے نیلا آسمان نظر آرہا تھا۔ چھت ہرچند کہ ہے مگر نہیں ہے۔ قبر کے اوپر 12 فٹ قطر کا سوراخ سا ہے۔ خوش عقیدہ گمان رکھتے ہیں کہ قبر پر بارش کا پانی نہیں آتا، لیکن عقل کہتی ہے کہ سوراخ سے یقیناً بارش کا پانی اندر اآتا ہوگا۔ کچھ اسے براہِ راست اوپر والے سے رابطہ کا ذریعہ سمجھتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں کہ جس زمانے میں یہ مزار بنا تھا تب ایسی عمارتوں کی چھت یا تو بنائی ہی نہیں جاتی تھی یا اس میں سوراخ رکھا جاتا تھا۔

مائی ہیر کی قبر کے اوپر 12 فٹ قطر کا سوراخ سا ہے—تصویر عطا محمد تبسم
مائی ہیر کی قبر کے اوپر 12 فٹ قطر کا سوراخ سا ہے—تصویر عطا محمد تبسم

قبر کا کتبہ بتاتا ہے کہ یہ ہیر اور رانجھا دونوں کا مرقد ہے لیکن مزار مائی ہیر ہی کے نام سے مشہور ہے۔ جھنگ میں اس مزار کی اونچائی کا راز یہ ہے کہ اب جہاں مزار واقع ہے اُس وقت دریائے چناب بالکل قریب بہتا تھا۔ ہیر رانجھا اس ٹیلے پر کچھ دیر سستانے رکے تو ان کی نظر ان لوگوں پر پڑی جو انہیں قتل کرنے کی غرض سے آ رہے تھے، اسی لمحے دونوں عاشقوں نے خدا سے دعا مانگی، جس کے نتیجے میں زمین شق ہوگئی اور دونوں اس میں سما گئے۔ قتل کرنے کی غرض سے آنے والوں نے یہ دیکھا تو عشاق صادق کے عتاب سے معافی طلب کی اور لوٹ گئے۔ یہ واقعہ کب پیش آیا، اس پر اختلاف ہے۔

مزاروں پر دھاگے باندھنے کی رسم یہاں بھی ہے۔ اس مزار کی کھڑکی پر گرہیں باندھنے والے بھی آتے ہیں اور من کی مراد پوری ہوجائے تو گرہیں کھولنے اور چادر چڑھانے والے عقیدت مند بھی آتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک مزار کے در و دیوار خاصے شکستہ ہوچکے تھے اور ان پر آنے جانے والے لوگ اپنے عاشقوں اور معشوقوں کے نام لکھا کرتے تھے لیکن کسی عاشق نے مزار کے در و دیوار کو رنگ و روغن کروادیا ہے۔

یہاں سیال اور رانجھا دونوں برادریاں بستی ہیں لیکن دونوں برادری کے افراد اس مزار کے نہ گدی نشین ہیں نہ اس کے مجاور۔ عوام مائی ہیر سے عقیدت رکھتے ہیں۔ 5 محرم کو ہر سال مائی ہیر کا عرس ہوتا ہے، جو پورا مہینہ جاری رہتا ہے اور عرس کے موقعے پر خاصی رونق ہوتی ہے اور دور دراز سے عاشق مائی ہیر کے مزار پر محبت کی دعائیں مانگنے آتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

mumtaz Feb 09, 2018 11:37am
Nice&good information