رواں ماہ 9 فروری کو بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ریلیز ہونے والی بولی وڈ فلم ’پیڈ مین‘ کے حوالے سے اطلاعات تھیں کہ اس پر پاکستان میں پابندی عائد کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا پر کئی صارفین نے لکھا تھا کہ ’پیڈ مین‘ کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔

’پیڈ مین‘ جیسی سماجی موضوع پر بنی فلم کو پاکستان میں ریلیز کی اجازت نہ دیے جانے پر عوام نے پاکستان کے فلم سینسر بورڈ کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’پیڈ مین‘ کی سپورٹ میں ٹوئیٹس کیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پیڈ مین‘ پر پاکستان میں پابندی؟ سوشل میڈیا پر تبصرے

متعدد پاکستانی خواتین صحافیوں، اداکاراؤں و سماجی رہنماؤں نے بھی پیڈز کے ساتھ تصاویر ٹوئیٹ کرکے فلم کو نمائش کی اجازت نہ دیے جانے پر فلم بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

جس کے بعد حکومت پاکستان کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے 11 فروری کو وضاحت کی گئی کہ سینٹرل بورڈ آف فلم سینسر (سی بی ایف سی) نے تاحال غیر ملکی فلم ’پیڈ مین‘ کا جائزہ نہیں لیا، اور کسی بھی فلم کو جائزے کے بغیر پہلے کیسے نمائش کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

حکومت پاکستان کی ٹوئیٹ میں وضاحت کی گئی کہ وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کی جانب سے تاحال غیر ملکی فلم کو نمائش کی اجازت نہیں دی گئی۔

حکومت پاکستان کی ایک اور ٹوئیٹ میں کہا گیا کہ سی بی ایف سی کسی بھی فلم کو اس وقت ہی نمائش کی اجازت کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے، جب کہ وہ فلم بورڈ کے معیار اور میرٹ پر پورا اترتی ہے۔

ساتھ ہی ٹوئیٹ میں کہا گیا کہ بعض نشریاتی اداروں کی جانب سے فلم کی تشہیر کے لیے جھوٹ پر مبنی سیاسی پروپیگنڈا کے تحت اس کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔

خیال رہے کہ 11 فروری کو ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی نے ’پیڈ مین‘ کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ دیے جانے پر ٹوئیٹ کے ذریعے سینسر بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اس فلم پہ شاید اس لیے پابندی عائد کی گئی کیوں کہ یہ ہماری روایات کے خلاف تھیں، کیوں کہ یہاں تو خواتین کو ماہواری آتی ہی ہیں۔

عمارہ احمد نے خواتین کے پیڈ کے ساتھ اپنی تصویر ٹوئیٹ کی اور کہا کہ پاکستان میں بھی خواتین کو حیض آتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے ’پیڈ مین‘ کی سپورٹ کرتے ہوئے اس پر پاکستان میں پابندی کے عقل کے منافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اسے جلد ریلیز کیا جائے۔

مہر تارڑ نے بھی پیڈ مین کی نمائش پر فلم سینسر بورڈ کو تنقید نشانہ بنایا اور ساتھ ہی انہوں نے اس پابندی کو پاکستان کی سینما انڈسٹری کے لیے نقصان بھی قرار دیا۔

اداکارہ ارمینہ خان نے براہ راست ’پیڈ مین‘ کا نام لیے بغیر خواتین کی ماہواری سے متعلق سلسلہ وار ٹوئیٹس کیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ہم نے پاکستان میں شادی اور تعلقات پر اس لیے فلمیں بنانا چھوڑ دیں ہیں کیوں کہ ہم سب ان معاملات کے بارے میں تمام چیزیں جانتے ہیں۔

۔

ساتھ ہی انہوں نے ایک ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا کہ انہیں ایسی باتیں کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں